(آیت 9 تا 12 حصہ اول)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡـكَهۡفِ وَالرَّقِيۡمِۙ كَانُوۡا مِنۡ اٰيٰتِنَا عَجَبًا ۞ اِذۡ اَوَى الۡفِتۡيَةُ اِلَى الۡـكَهۡفِ فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً وَّهَيِّئۡ لَـنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا ۞ فَضَرَبۡنَا عَلٰٓى اٰذَانِهِمۡ فِى الۡـكَهۡفِ سِنِيۡنَ عَدَدًا ۙ ۞ ثُمَّ بَعَثۡنٰهُمۡ لِنَعۡلَمَ اَىُّ الۡحِزۡبَيۡنِ اَحۡصٰى لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا ۞
ترجمہ:
کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ غار اور رقیم والے لوگ ہماری نشانیوں میں سے کچھ (زیادہ) عجیب چیز تھے؟ ۞ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی اور (اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے) کہا تھا کہ : اے ہمارے پروردگار ہم پر خاص اپنے پاس سے رحمت نازل فرمائیے، اور ہماری اس صورت حال میں ہمارے لیے بھلائی کا راستہ مہیا فرما دیجیے۔ ۞ چنانچہ ہم نے ان کے کانوں کو تھپکی دے کر کئی سال تک ان کو غار میں سلائے رکھا۔ ۞ پھر ہم نے ان کو جگایا تاکہ یہ دیکھیں کہ ان کے دو گروہوں میں سے کون سا گروہ اپنے سوئے رہنے کی مدت کا زیادہ صحیح شمار کرتا ہے۔۞
……………….. تفسیر ………………..
اَمۡ حَسِبۡتَ ……. كَانُوۡا مِنۡ اٰيٰتِنَا عَجَبًا.
جن لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے ان نوجوانوں کے بارے میں سوال کیا تھا، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا واقعہ بڑا عجیب ہے۔ اس آیت میں انہی کے حوالے سے فرمایا جا رہا ہے کہ کیا تم اس خدا کی قدرت سے، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے، اس بات کو کچھ بعید سمجھتے ہو کہ وہ چند آدمیوں کو دو تین سو برس تک سلائے رکھے اور پھر ویسا ہی جوان و تندرست جگا اٹھائے جیسے وہ سوئے تھے؟ اگر سورج اور چاند اور زمین کی تخلیق پر تم نے کبھی غور کیا ہوتا تو تم ہرگز یہ خیال نہ کرتے کہ خدا کے لیے یہ کوئی بڑا مشکل کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے پیش نظر یہ واقعہ کوئی بہت عجیب نہیں ہے، کیونکہ اس کی قدرت کے کرشمے تو بیشمار ہیں۔
فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا۔
” رشد ” کا مفہوم : ” رشد ” کے معنی ہیں اس نے ہدایت اور استقامت پائی۔ رَشِدَ امرہ کے معنی ہوں گے اس نے اپنے معاملے میں ہدایت پائی وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا۔ کا مفہوم ہوگا کہ اے ہمارے رب ہمارے لیے اس راہ میں جو ہم نے اختیار کی ہے تو رہنمائی اور استقامت کا بَدْرَقَہ (سامان) مہیا فرما۔
نوجوانوں کی دعا : یہ وہ دعا ہے جو ان نوجوانوں نے اس وقت کی ہے جب انہوں نے غار میں پناہ لینے کا ارادہ کیا ہے آیات کے الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ یہ نوجوان لوگ تھے۔ نوجوانوں میں جب ایک مرتبہ حق کی حمیت جاگ پڑتی ہے تو پھر نہ وہ مصالح کی پروا کرتے ہیں اور نہ خطرات کی۔ لیکن ان لوگوں کے اندر صرف جوانی کا جوش ہی نہیں تھا بلکہ اللہ کی بخشی ہوئی حکمت کا نور بھی تھا۔ اس وجہ سے اس نازک مرحلہ میں انہوں نے اللہ سے رہنمائی اور استقامت کی دعا کی اور یہی بات اہل ایمان کے شایان شان ہے۔
یہ اصحاب کہف کے نوجوان ہیں جنہوں نے جب اپنے دین کو بچاتے ہوئے غار میں پناہ لی تو یہ دعا مانگی۔ اصحاب کہف کے اس قصے میں نوجوانوں کے لئے بڑا سبق ہے، آجکل کے نوجوانوں کا بیشتر وقت فضولیات میں برباد ہوتا ہے اور اللہ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ کاش ! آج کے مسلمان نوجوان اپنی جوانیوں کو اللہ کی اطاعت و عبادت اور دین کی تبلیغ و اشاعت میں صرف کریں۔
فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا۔
“ضرب علی الاذان” کے لفظی معنی کانوں پر ٹھپہ لگانے یا تھپکنے کے ہیں۔ یہیں سے یہ محاورہ کسی کو سننے سے روک دینے یا پیار و شفقت سے سلا دینے کے مفہوم میں استعمال ہونے لگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کو جب سلاتے ہیں تو اس کے کانوں پر تھپکتے ہیں۔ غار میں پناہ لینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ ان پر کئی سالوں کے لیے نہایت آرام و سکون کی نیند طاری کردی۔ نیند کے لیے یہ الفاظ بطور استعارہ استعمال ہوئے ہیں اور پیار کے ساتھ سلانے کے لیے یہ نہایت بلیغ استعارہ ہے۔
ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَى لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا۔
” لِنَعْلَمَ ” پر ” لِ ” غایت و نہایت کے مفہوم میں ہے اور ” نَعْلَمَ ” کے معنی یہاں دیکھنے اور جانچنے کے ہیں آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اس طویل نیند کے بعد پھر ہم نے ان کو جگایا تاکہ یہ بات اس نتیجہ تک پہنچے کہ وہ دو گروہ ہو کر آپس میں اس سوال پر بحث کریں کہ اس حالتِ خواب میں وہ کتنی مدت رہے؟ کوئی کچھ کہے گا کوئی کچھ۔ اس طرح ہم ان کو جانچ لیں گے کہ اس مدت کا ان میں سے کون سا گروہ اندازہ کرسکا ہے اور بالآخر یہ بات واضح ہوجائے کہ ان میں سے کوئی بھی اس کا اندازہ نہیں کرسکا۔ نیز ان پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجائے کہ یہی حال برزخی زندگی کا ہوگا۔ اس کی مدت کا بھی کسی کو احساس نہیں ہوگا۔ ہر شخص اٹھنے پر یہی گمان کرے گا کہ بس ابھی سوئے تھے ابھی جاگ پڑے ہیں۔
______________________________
ربیع الاول 5 , 1442 بروز جمعہ
اکتوبر 23 , 2020
➖➖➖➖➖
منجانب : شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں
*جاری……………………………………..*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
0 تبصرے