ہدایت والے راستے کی تلاش


___ ہدایت والے راستے کی تلاش ___
✍ نعیم الرحمن ندوی 

ہم اپنے اردگرد لوگوں کو، گروہوں کو، مختلف فکر و نظر کی جماعتوں کو دیکھتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو سچے اور سیدھے راستے پر سمجھتا ہے، چاہے یہ واضح گمراہی یا کھلے شرک میں مبتلا ہوں۔ حتی کہ غیر ایمان والے بھی اپنے آپ کو سچے راستہ پر ہی سمجھتے ہیں۔ اور ہم بھی اپنے آپ کو صحیح، درست فکر و نظر کا حامل، ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔
’’لیکن کیا واقعی ہم ہدایت پر ہیں؟ ہم سیدھے راستے پر ہیں؟‘‘
یہ سوال ہمیں بے چین کردیتا ہے اور بے چین کرنا بھی چاہئے، اسلئے کہ ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی، صلاح و فلاح اسی سیدھے راستے (صراطِ مستقیم) پر قائم و دائم رہنے پر موقوف ہے، چنانچہ ہدایت والا راستہ یعنی صراط مستقیم ہمیں واضح طور پر معلوم ہونا چاہئےـ

*صراط مستقیم کی پہچان کتنی اہم ہے؟*
دنیا میں صراط مستقیم کا پہچاننا ہی سب سے بڑا علم اور بڑی کامیابی ہے اور اسی کی پہچان میں غلطی ہونے سے دنیا میں صرف فرد ہی نہیں، جماعتیں اور قومیں تک گمراہ اور تباہ ہوتی ہیں ورنہ خدا کی طلب و چاہت اور اس کے لئے محنت و مجاہدہ کی بہت سے کافروں میں بھی کوئی کمی نہیں اسی لئے قرآن مجید میں صراط مستقیم کو پوری وضاحت کے ساتھ ایجابی اور سلبی (مثبت و منفی) دونوں پہلوؤں سے واضح کیاگیا ہے۔

*صراط مستقیم کیسا راستہ ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے؟*
" الصراط المستقیم " سے مراد وہ سیدھا راستہ ہے جو بندوں کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے کھولا ہے، جو دین اور دنیا دونوں کی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے، جس پر چلنے کی دعوت نبیوں اور رسولوں نے دی ہے، جس پر ہمیشہ خدا کے نیک بندے چلے ہیں، جو اللہ پاک تک پہنچنے کیلئے سب سے قریب اور سب سے سہل و آسان ہے، جس کے اطراف سے گمراہوں اور گمراہ کرنے والوں نے بہت سے ٹیڑھے میڑھے راستے نکال لئے ہیں، لیکن صراطِ مستقیم اپنی جگہ قائم ہے اور خدا تک پہنچنے والے ہمیشہ اسی پر چل کر خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ اسی سیدھے راستے کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ اس طرح سمجھایا کہ آپ نے زمین پر ایک سیدھی لکیر کھینچی، پھر اس کے دائیں بائیں آڑی ترچھی لکیریں کھینچ دیں، پھر آپ نے فرمایا کہ یہ سیدھی لکیر اللہ تعالیٰ کا راستہ (صراطِ مستقیم) ہے اور یہ آڑی ترچھی لکیریں پگڈنڈیاں ہیں اور ان میں سے ہر پگڈنڈی کی طرف کوئی نہ کوئی شیطان بلا رہا ہے۔

*صراطِ مستقیم اور سورہ فاتحہ*......
سیدھا راستہ وہ ہے جس میں موڑ نہ ہو، اور مراد اس سے دین کا وہ راستہ ہے جس میں افراط اور تفریط نہ ہو، افراط کے معنی حد سے آگے بڑھنا اور تفریط کے معنی کمی کوتاہی کرنا۔ سورة فاتحہ قرآن پاک میں ترتیب میں سب سے پہلے رکھی گئی ہے اور اس پوری سورت کا خلاصہ اور حاصلِ مطلب یہ دعا ہے کہ یا اللہ ہمیں سیدھے راستے (صراط مستقیم) کی رہبری فرما۔
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.
ترجمہ: ہمیں سیدھے راستے (صراط مستقیم) کی رہبری فرما، ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔

*صراطِ مستقیم کی اتنی زیادہ وضاحت کیوں؟*......
اس ہدایت والے راستہ کی اہمیت کے سبب اللہ پاک نے صرف اتنے ہی پر بس نہیں فرمایا کہ ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت بخشی بلکہ اس کی پوری وضاحت بھی فرمادی ہے اور یہ وضاحت مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ راستہ ان لوگوں کا ہے جن پر اللہ پاک کا انعام ہوا ہے اور منفی پہلو یہ ہے کہ وہ لوگ نہ تو ایسے ہیں جن سے آپ ناراض ہوئے اور نہ وہ سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ اس وضاحت کے بعد مدعا و مطلب اس طرح آئینہ ہو کر سامنے آگیا ہے کہ کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔
اس ساری وضاحت کی ضرورت صرف اس وجہ سے ہے کہ سیدھے راستے کا مانگنے والا اپنے مطلوبِ حقیقی (یعنی اللہ پاک) کی طلب کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے اپنی بیزاری کا اظہار بھی کرے جنہوں نے اس محبوب و مطلوب سے منہ موڑا یا اس سے بھٹک گئے اور اپنے لیے اس راہ پر استقامت کا طلب گار رہے تاکہ اس راستہ کو پالینے کے بعد اس پر قائم رہنا نصیب ہو، ان لوگوں کی طرح انجام نہ ہو جن کو یہ راستہ ملنے کو تو ملا لیکن وہ اس کو پالینے کے بعد یا تو جان بوجھ کر اس سے منحرف ہوئےجس کے سبب خدا کے غضب میں مبتلا ہوئے، یا اپنی بدعت پسندیوں کی وجہ سے اس کو پا کر اس سے محروم ہوگئے۔

*تین گروہ کی تفصیل*
صراطِ مستقیم کے بیان میں تین گروہ کا ذکر ہے۔ ایک انعام یافتہ گروہ (مُنْعَمْ عَلَیْہِم)۔ دوسرا غضبِ الٰہی کا شکار گروہ (مَغْضُوْبْ عَلَیْہِم)۔ تیسرا گمراہی کا شکار گروہ (ضَالِّیْن؛ بھٹکا ہوا)۔ مختصراً ان تینوں گروہ کی خصوصیات بھی معلوم کرلینی چاہئے۔
١) *انعام یافتہ گروہ (مُنْعَمْ عَلَیْہِم)*
" انعمت علیہم " میں نعمت سے مقصود در اصل ہدایت و شریعت کی نعمت ہے جس سے انسان دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کا راستہ معلوم کرتا ہے۔ فعل اِنعام یہاں اپنے کامل اور حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد در حقیقت وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے شریعت کی نعمت عطا فرمائی اور انہوں نے دل و جان سے اس کو قبول کیا، اس نعمت کے دیئے جانے پر وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہے، اس کی خود بھی قدر کی اور دوسروں کو بھی اس کی قدر کرنے پر ابھارا، اس کی حفاظت کے لیے انہوں نے اپنی قوتیں اور قابلیتیں بھی خرچ کیں، مال بھی قربان کیا اور اگر ضرورت کے وقت اس کی راہ میں جان قربان کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ ایک دوسری آیت میں اس انعام پائے ہوئے گروہ کی وضاحت کی گئی ہے۔ " فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ..... " (نساء :69) ۔ پس یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا انعام فرمایا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء، اور صالحین کے ساتھ۔"
وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین، اللہ پاک کے دربار میں قبولیت کے یہ چار درجات ہیں جن میں سب سے اعلیٰ انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور صدیقین وہ لوگ ہیں جو انبیاء کی امت میں سب سے زیادہ رتبے کے ہوتے ہیں جن میں کمالاتِ باطنی بھی ہوتے ہیں عُرف میں ان کو اولیاءاللہ کہا جاتا ہے، شہداء وہ ہیں جنہوں نے دین کی محبت میں اپنی جان تک دے دی اور صلحاء وہ ہیں جوپوری شریعت کے اتباع کرنے والے ہوتے ہیں، واجبات میں بھی مستحبات میں بھی جن کو عُرف میں نیک و دیندار کہا جاتا ہے۔

٢) *غضبِ الٰہی کا شکار گروہ (مَغْضُوْبْ عَلَیْہِم)*
" مغضوب علیہم " سے مراد دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کی نعمت نازل فرمائی لیکن انہوں نے اپنی سرکشی کے سبب سے نہ صرف یہ کہ اس کو قبول نہیں کیا، بلکہ اس کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جن لوگوں نے اس کو ان کے سامنے پیش کیا ان کو جڑ سے ختم کرنے اور انکے قتل کے درپے ہوئے جس کے انجام میں ان پر خدا کا غضب نازل ہوا اور وہ ہلاک کردئیے گئے۔ دوسرے وہ لوگ جنہوں نے قبول تو کیا لیکن دل کی خوشی و آمادگی کے ساتھ قبول نہیں کیا ، پھر بہت جلد نفسانی شہوات میں پڑ کر انہوں نے اس کے کچھ حصہ کو ضائع کردیا، کچھ حصہ میں کاٹ چھانٹ کرکے اس کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا لیا اور جن لوگوں نے ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی یا ان کو صحیح راستہ پر لانا چاہا انہوں نے ان میں سے بعض کو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل کردیا۔ پچھلی امتوں میں اس کی سب سے واضح مثال یہودی ہیں۔ چنانچہ ان کے معتوب و مغضوب ہونے کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ مثلاً "مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ". (مائدہ:60) ۔ " وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّة ُوَالْمَسْكَنَة ُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ" (بقرہ:61) جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر اس کا غضب ہوا اور جن کے اندر سے اس نے بندر اور خنزیر بنائے۔ اور ان کے اوپر ذلت و مسکنت تھوپ دی گئی اور وہ خدا کا غضب لے کر پلٹے۔

علمی نکتہ
 ’’مغضوب علیہم: جن پر غضب نازل ہوا‘‘ میں فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح براہ راست نہیں ہے جس طرح انعام کے ذکر میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انعام ہمیشہ اور ہر حال میں بندہ پر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، اس کےبرعکس بندہ، خدا کے غضب کا مستحق اپنے اعمال کے سبب سے خود بنتا ہے۔

٣) *گمراہی کا شکار گروہ (ضَالِّیْن؛ بھٹکا ہوا)*
 " ضالین " سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دین میں غلو کیا، جنہوں نے اپنے پیغمبر کا رتبہ اتنا بڑھایا کہ اس کو خدا بنا کر رکھ دیا، جو صرف انہی عبادتوں اور طاعتوں پر قناعت نہیں کی جو اللہ اور اللہ کے رسول نے مقرر کی تھیں بلکہ اپنے جی سے، اپنے دل سے (اللہ کی عبادت کرنے کا) رہبانیت کا ایک پورا نظام کھڑا کردیا، جنہوں نے اپنے اگلوں کی ایجاد کی ہوئی بدعتوں اور گمراہیوں کی آنکھ بند کر کے پیروی کی اور اس طرح صراطِ مستقیم سے ہٹ کر گمراہی کی پگڈنڈیوں پر نکل گئے۔ پچھلی امتوں میں سے اس کی نہایت واضح مثال نصاریٰ یعنی عیسائی ہیں۔ چناچہ قرآن مجید نے انہی وجوہات کی بنیاد پر جن کا اوپر ذکر ہوا ہے، ان کو گمراہ اور گمراہ کرنے والے قرار دیا ہے۔ مثلاً " قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ " (مائدہ77) ۔ ترجمہ: کہہ دوتم کہ اے اہل کتاب! تم اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشوں (بدعتوں) کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے گمراہ چلے آرہے ہیں اور جنہوں نے بہتوں کو خدا کے راستہ سے بھٹکایا اور جو خود بھی اس کے راستہ سے بھٹکے۔
 تفسیر:’’ غلو “ کا مطلب ہے کسی کام میں اس کی بتلائی ہوئی حدود سے آگے بڑھ جانا۔ عیسائیوں کا غلو یہ تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعظیم میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ انہیں خدا قرار دے دیا، اور یہودیوں کا غلو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے محبت کا جو اظہار کیا تھا اس کی بنا پر یہ سمجھ بیٹھے کہ دنیا کے دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر بس وہی اللہ کے چہیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ جو چاہیں کریں، اللہ تعالیٰ ان سے ناراض نہیں ہوگا، نیز ان میں سے بعض نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا تھا۔

*انعام سے مراد کونسا انعام ہے؟*
 " انعام " پانے والوں سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جو بظاہر عارضی و وقتی طور پر دنیوی نعمتوں (زمین، جائیداد، مال و دولت، صحت و عزت وغیرہ) سے سرفراز تو ہوتے ہیں مگر اصل میں وہ اللہ پاک کے غضب کے مستحق ہوا کرتے ہیں اور اپنی سعادت کی راہ گم کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سلبی تشریح سے یہ بات خود کھل جاتی ہے کہ " انعام " سے مراد وہ حقیقی اور ہمیشہ رہنے والے انعامات ہیں جو سیدھے راستے کو اپنانے، اس پر چلنے اور خدا کی خوشنودی کے نتیجے میں ملا کرتے ہیں، نہ کہ وہ عارضی اور نمائشی انعامات جو پہلے بھی فرعونوں، نمرودوں اور قارونوں کو ملتے رہے ہیں اور آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے ظالموں، بدکاروں اور گمراہوں کو ملے ہوئے ہیں۔

*صراط مستقیم کتاب اللہ اور رجال اللہ دونوں کے مجموعہ سے ملتا ہے۔*...... 
 یہاں ایک بات قابل غور ہے اور اس میں غور کرنے سے ایک بڑے علم کا دروازہ کھلتا ہے وہ یہ کہ صراط مستقیم کی تعیین کے لئے بظاہر صاف بات یہ تھی کہ "صراط الرسول (پیغمبر کا راستہ) یا صراط القرآن (قرآن کا راستہ) " فرما دیا جاتا جو مختصر بھی تھا اور واضح بھی کیونکہ پورا قرآن درحقیقت صراط مستقیم کی تشریح ہے اور پوری تعلیماتِ رسولﷺ اسی کی تفصیل لیکن قرآن کی اس مختصر سورت میں اختصار اور وضاحت کے اس پہلو کو چھوڑ کر صراط مستقیم کی تعیین کے لئے اللہ تعالیٰ نے مستقل دو آیتوں میں مثبت و منفی پہلوؤں سے صراط مستقیم اس طرح متعین فرمایا کہ اگر سیدھا راستہ چاہتے ہو تو ان ان لوگوں کو تلاش کرو اور ان کے طریقہ کو اختیار کرو، قرآن کریم نے اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ قرآن کا راستہ اختیار کرو کیونکہ محض کتاب انسانی تربیت کے لئے کافی نہیں اور نہ یہ فرمایا کہ رسول کا راستہ اختیار کرو کیونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بقاء اس دنیا میں ہمیشہ و دائمی نہیں اور آپ کے بعد کوئی دوسرا رسول اور نبی نہیں اس لئے صراط مستقیم جن لوگوں کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے ان میں نبیّین کے علاوہ ایسے حضرات بھی شامل کردئیے گئے جو تاقیامت ہمیشہ موجود رہیں گے مثلاً صدیقین، شہداء، اور صالحین۔
 خلاصہ یہ ہے کہ سیدھا راستہ معلوم کرنے کے لئے حق تعالیٰ نے کچھ رجال اور انسانوں کا پتہ دیا، کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا، ایک حدیث میں ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرامؓ کو خبر دی کہ پچھلی امتوں کی طرح میری امت بھی بہتّر فرقوں میں بٹ جائے گی اور صرف ایک جماعت ان میں حق پر ہوگی تو صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا کہ وہ کونسی جماعت ہے ؟ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو جواب دیا ہے اس میں بھی کچھ رجال اللہ ہی کا پتہ دیا گیا ہے فرمایا : وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي. (جزء من الحدیث؛ رواه الترمذى)،۔۔۔ یعنی حق پر وہ جماعت ہوگی جو میرے اور میرے صحابہؓ کے طرز پر ہو۔۔۔۔ اس خاص طرز میں شاید اس کی طرف اشارہ ہو کہ انسان کی تعلیم و تربیت محض کتابوں اور روایتوں سے نہیں ہوسکتی بلکہ رجال ماہرین کی صحبت اور ان سے سیکھ کر حاصل ہوتی ہے یعنی درحقیقت انسان کا معلم اور مربی انسان ہی ہوسکتا ہے۔ بقول اکبر مرحوم۔
کورس تو لفظ ہی سیکھاتے ہیں 
آدمی، آدمی بناتے ہیں 
 اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام کاروبار میں نظر آئے گی کہ محض کتابی تعلیم سے نہ کوئی کپڑا سینا سیکھ سکتا ہے نہ کھانا پکانا، نہ ڈاکٹری کی کتاب پڑھ کر کوئی ڈاکٹر بن سکتا ہے نہ انجینیری کی کتابوں کے محض مطالعے سے کوئی انجینیر بنتا ہے اسی طرح قرآن و حدیث کا محض مطالعہ انسان کی تعلیم اور اخلاقی تربیت کے لئے ہرگز کافی نہیں ہوسکتا، جب تک اس کو کسی محقق ماہر سے باقاعدہ ساتھ رہ کر حاصل نہ کیا جائے۔ قرآن و حدیث کے معاملے میں بہت سے لکھے پڑھے آدمی اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ محض ترجمے یا تفسیر دیکھ کر وہ قرآن کے ماہر ہوسکتے ہیں یہ بالکل فطرت کے خلاف تصور ہے اگر محض کتاب کافی ہوتی تو رسولوں کے بھیجنے کی ضرورت نہ تھی، کتاب کے ساتھ رسول کو معلم بنا کر بھیجنا اور صراط مستقیم کو متعین کرنے کے لئے اپنے مقبول بندوں کی فہرست دینا اس کی دلیل ہے کہ محض کتاب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کے لئے کافی نہیں بلکہ کسی ماہر سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
 معلوم ہوا کہ انسان کی کامیابی کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں ایک کتاب اللہ جس میں انسانی زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ احکام موجود ہوں، دوسرے رجال اللہ یعنی اللہ والے، اور ان سے استفادے کی صورت یہ ہے کہ کتاب اللہ کے معروف اصول پر رجال اللہ کو پرکھا جائے جو اس معیار پر نہ اتریں ان کو رجال اللہ ہی نہ سمجھا جائے اور جب رجال اللہ صحیح معنی میں حاصل ہوجائیں تو ان سے کتاب اللہ کا مفہوم سیکھنے اور عمل کرنے کا کام لیا جائے۔

*فرقہ وارانہ اختلافات کا بڑا سبب*..... 
 فرقہ وارانہ اختلافات کا بڑا سبب یہی ہے کہ کچھ لوگوں نے صرف کتاب اللہ کو لے لیا، رجال اللہ سے نظر ہٹالی، ان کی تفسیر وتعلیم کو کوئی حیثیت نہ دی اور کچھ لوگوں نے صرف رجال اللہ کو معیارِ حق سمجھ لیا اور کتاب اللہ سے آنکھ بند کرلی، ان دونوں طریقوں کا نتیجہ گمراہی ہے۔

*سب کا بلاوا (دعوت) اسی کی طرف*..... 
 صراطِ مستقیم ہی اللہ پاک تک پہنچنے کا راستہ ہے، اسی راستہ پر اللہ پاک سے وصال ہے، اسی راستہ کی طرف انسانوں کو بلانے کیلئے نبیوں، رسولوں کو بھیجا جاتا رہا ہے، اس راہ پر چلنے والوں کی مدد کی جاتی رہی ہے اور منزل تک پہنچنے والوں کا استقبال ہوتا رہا ہے۔ ارشادِ باری ہے:
إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ.
ترجمہ:یقیناً میرا پروردگار سیدھے راستے پر ہے۔ (ھود:056)
قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ.
ترجمہ: اللہ نے فرمایا : یہ ہے وہ سیدھا راستہ جو مجھ تک پہنچتاہے۔ (حجر:041)
وَاِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏.
ترجمہ: اور یقین رکھو کہ اللہ ایمان والوں کو سیدھے راستے کی ہدایت دینے والا ہے۔ (سورۃ 22 - الحج - آیت 54)

*تمام نبیوں ، رسولوں نے اسی راستے کی دعوت دی*..... 
 ارشاد باری ہے: وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ.
ترجمہ:اور (اے پیغمبر !لوگوں سے کہہ دو کہ) یقیناً اللہ میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے ، اس لئے اس کی عبادت کرو ، یہی سیدھا راستہ ہے۔ (019:036)

آخری نبی ﷺ اسی راستے پر تھے... 
فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ.
ترجمہ: لہذا جو تم پر وحی نازل کی گئی ہے اسے مضبوطی سے تھامے رکھو ،یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو۔ (زخرف:043)
اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ.
ترجمہ: تم یقینا پیغمبروں میں سے ہو، بالکل سیدھے راستے پر۔
(سورۃ 36 - يس - آیت 4۔3)

آخری نبی ﷺ کی دعوت بھی..... 
وَاِنَّكَ لَـتَدۡعُوۡهُمۡ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ، وَاِنَّ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَـنٰكِبُوۡنَ.
ترجمہ: اور حقیقت یہ ہے کہ تم تو انہیں سیدھے راستے کی طرف بلا رہے ہو، اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، وہ راستے سے بالکل ہٹے ہوئے ہیں۔ (سورۃ 23 - المؤمنون - آیت 74۔73)
 اور شیطان اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کیلئے اسی شاہراہ پر مختلف پگڈنڈیاں بناکر ڈیرہ ڈالے بیٹھا ہوا اپنے کام میں مشغول ہے، دربارِ الٰہی سے اسی کام کی قسم کھاکر آیا ہوا ہے:
قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَيۡتَنِىۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَهُمۡ صِرَاطَكَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ‏.
ترجمہ: کہنے لگا : اب چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، اس لیے میں (بھی) قسم کھاتا ہوں کہ ان (انسانوں) کی گھات لگا کر تیرے سیدھے راستے پر بیٹھ رہوں گا۔ (سورۃ 7 - الاعراف - آیت 16)

*....... حاصلِ مطالعہ ........*
 قرآن پاک نے ہدایت پانے اور گمراہ ہونے میں قوموں کی تخصیص نہیں کی بلکہ ان کے اوصاف بتائے جو اس بات کو واضح کرتا ہیکہ اللہ پاک کے یہاں اوصاف کی قیمت ہے اقوام و ملل اور افراد و جماعت کی نہیں، دوسرے لفظوں میں اللہ پاک کے یہاں نسل و قبیلہ، ذات، برادری یا کسی بھی دوسری نسبت کا وزن نہیں ہے، سوائے اوصاف و اعمال کےـ:
إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى اَجْسَادِكُمْ وَلَا اِلَى صُوَرِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ. ( جمع الفوائد ج 2 ص 160 ) ترجمہ: “ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں اور تمہارے صرف ظاہری اعمال کو نہیں دیکھتا ، بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے ” ۔ 
 اچھے اوصاف و اعمال ہی اللہ پاک کے یہاں قیمتی بناتے ہیں اور برے اعمال و اوصاف ہی بے قیمت کرتے ہیں۔ ان اوصاف کے میزان میں اپنے آپ کو تولیں اور اپنی ہمیشہ کی زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے درست راستے کا انتخاب بہت احتیاط سے کریں۔
اللہ پاک نے حق و باطل واضح فرما دیا ہے:
ألَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْن وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ. ترجمہ: کیا ہم نے اسے دو آنکھیں نہیں دیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے؟ اور ہم نے اس کو دونوں راستے بتا دیئے ہیں۔
تفسیر: وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ؛ انسان کو اللہ تعالے نے نیکی اور بدی کے دونوں راستے دکھادیئے ہیں اور اختیار دیا ہے کہ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہو اختیار کرسکتے ہو، لیکن بدی کا راستہ اختیار کروگے تو سزا ہوگی۔ اس لئے آنکھوں، کانوں اور زبان کی صلاحیتوں، اور عقل و سمجھ کی بنیاد پر دیئے گئے اختیار کا درست استعمال کریں۔
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا.
ترجمہ: اور کہہ دو کہ : حق تو تمہارے رب کی طرف سے آچکا ہے۔ اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔ ہم نے بیشک (ایسے) ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں و لِپٹیں ان کو گھیرے میں لے لیں گی، اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد کا جواب ایسے پانی سے دیا جائے گا جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا، (اور) چہروں کو بھون کر رکھ دے گا۔ کیسا بدترین پانی، اور کیسی بری آرام گاہ ہے!
تفسیر: یعنی حق کے واضح ہوجانے کے بعد دنیا میں کسی کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، البتہ جو شخص ایمان نہیں لائے گا، اس کو آخرت میں بیشک ایک خوفناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

*ہمیں کیا کرنا ہوگا؟*...... 
 صراط مستقیم پر قائم رہنے کیلئے ہمیں قرآن پاک کے بتائے ہوئے انعام یافتہ لوگوں (یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء و صالحین) سے جڑنا اور انکے اوصاف و کردار سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہوگا اور مغضوب و گمراہ قوموں، جماعتوں اور لوگوں سے، ان کے کرتوت اور ان کی پیدا کردہ بدعات و خرافات سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہوگا۔ اس ضمن میں یہود و نصاری کی عادات و بدعات اور غضب الہی کے اسباب اور ان کی گمراہی کی وجوہات کو معلوم کرنا اور ان تمام لوگوں اور گروہوں سے جن میں ایسے اوصاف کسی درجہ میں بھی پائے جائیں ان سے اپنا دامن بچانا ضروری ہے۔ اس لئے کہ صراطِ مستقیم ہی وہ راستہ ہے جس پر ہمیشہ سے اللہ پاک کے منظور نظر لوگ چلتے رہے ہیں۔ وہ ایسا بےخطا راستہ ہے کہ روزِ اول سے آج تک جو شخص اور جو گروہ بھی اس پر چلا وہ اللہ پاک کے انعامات کا مستحق ہوا اور اس کی نعمتوں سے مالا مال ہو کر رہا۔
 ہمیں چاہئے کہ ہم سیدھے اور منزل مقصود تک پہنچانے والے اس راستے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو سمجھنے کے بعد اس پر چلنے اور جمنے کی جدوجہد کریں۔
 اس شاہراہِ ہدایت پر قائم و دائم رہنے کیلئے جس طرح صحابہ کرامؓ؛ اللہ کے رسول ﷺ سے وابستہ تھے، پوچھ پوچھ کر، ہدایت و رہنمائی لیکر چلا کرتے تھے اسی طرح ہمیں "منعم علیہم گروہ یعنی رجال اللہ صدیقین، شہداء اور صالحینِ امت" سے اصلاحی تعلق قائم کرنا ہوگا اور "مغضوب علیم اور ضالّین" جماعتوں اور قوموں کے اوصافِ رذیلہ سے بچنے کیلئے انہی سے اصلاح و رہنمائی لینی ہوگی۔

*خلاصہ کلام*
 ایک زمانہ میں سب آدمی ایک ہی طریقہ پر تھے کیونکہ دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام اپنی بی بی حضرت حواؒ کے ساتھ تشریف لائے اور جو اولاد ہوتی گئی ان کو دینِ حق کی تعلیم فرماتے رہے اور وہ ان کی تعلیم پر عمل کرتے رہے ایک مدت اسی حالت میں گذر گئی پھر طبیعتوں کے اختلاف سے آپس میں اختلاف ہونا شروع ہوا حتی ٰکہ ایک عرصہ کے بعد اعمال و عقائد میں اختلاف کی نوبت آگئی پھر اس اختلاف کے رفع کرنے کیلئےاللہ تعالیٰ نے مختلف پیغمبروں کو بھیجا جو حق ماننے والوں کو خوشی کے وعدے سناتے تھے اور نہ ماننے والوں کو عذاب سے ڈراتے تھے اور ان پیغمبروں کی جماعت کے ساتھ آسمانی کتابیں بھی نازل فرمائیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ سے اختلاف کرنے والے لوگوں میں فیصلہ فرمادیں مگر بعضوں نے جنہیں وہ کتاب ملی تھیں اس کتاب ہی کو نہ مانا اور خود ہی اسی میں اختلاف کرنا شروع کردیا۔ اصلی وجہ اس اختلاف کی دنیا کی محبت ہوتی تھی، لیکن یہ کافروں کا اختلاف کبھی اہل ایمان کو نقصان دہ نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ایمان والوں کو وہ حق بات جس میں اختلاف کرنے والے اختلاف کیا کرتے تھے بفضلہ تعالیٰ رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانے کی بدولت بتلا دیا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں اسی کو راہ راست یعنی صراطِ مستقیم بتلا دیتے ہیں۔

*مختلف انبیاء کے مبعوث اور مختلف کتابوں کے نزول کا مقصد* ...... 
 مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء علیہم السلام اور ان کی مختلف کتابیں آنے سے کوئی اس دھوکہ میں نہ پڑجائے کہ انبیاء علیہم السلام اور کتابیں لوگوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کرنے اور افتراق پیدا کرنے کے لئے نازل کی گئی ہیں بلکہ منشاء ان سب انبیاء علیہم السلام اور کتابوں کا یہ ہے کہ جس طرح پہلے سارے انسان ایک ہی دین حق کے پیچھے چلنے والے ہو کر ملت واحدہ تھے اسی طرح پھر اسی دین حق پر سب جمع ہوجائیں۔
اوپر ذکر کیا گیا خلاصہ نیچے دی گئی آیت کی تفصیلی تفسیر سے مستفاد ہے۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيۡنَ وَمُنۡذِرِيۡنَ ۖ وَاَنۡزَلَ مَعَهُمُ الۡكِتٰبَ بِالۡحَـقِّ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَ النَّاسِ فِيۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِيۡه وَمَا اخۡتَلَفَ فِيۡهِ اِلَّا الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡهُ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ الۡبَيِّنٰتُ بَغۡيًا ۢ بَيۡنَهُمۡ‌ۚ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَا اخۡتَلَفُوۡا فِيۡهِ مِنَ الۡحَـقِّ بِاِذۡنِهٖ‌  وَاللّٰهُ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ.
ترجمہ: (شروع میں) سارے انسان ایک ہی دین کے پیرو تھے، پھر (جب ان میں اختلاف ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے جو (حق والوں کو) خوشخبری سناتے، اور (باطل والوں کو) ڈراتے تھے، اور ان کے ساتھ حق پر مشتمل کتاب نازل کی، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں ان کا اختلاف تھا۔ اور (افسوس کی بات یہ ہے کہ) کسی اور نے نہیں بلکہ خود انہوں نے جن کو وہ کتاب دی گئی تھی، روشن دلائل آجانے کے بعد بھی، صرف باہمی ضد کی وجہ سے اسی (کتاب) میں اختلاف نکال لیا، پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انہیں اپنے حکم سے حق کی ان باتوں میں راہ راست تک پہنچایا جن میں انہوں نے اختلاف کیا تھا، اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست تک پہنچا دیتا ہے۔ (القرآن - سورۃ 2 - البقرة - آیت 213)
______________________________ 
آخر میں ہم یہی دعا دہراتے ہیں۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ
اے باری تعالٰی ” ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ یعنی ہمیں سیدھے اور منزل مقصود تک پہنچانے والے راستے کو سمجھنے کی توفیق دے۔ اور اس کو سمجھنے کے بعد اس پر چلنے کی، اس پر جمے رہنےکی توفیق دے، اس راستہ کے صحیح ہونے پر ہمارے دلوں کو مطمئن کردے، اس پر چلنے کا ہمارے اندر ذوق و شوق پیدا کردے، اس کی مشکلیں ہمارے لیے آسان کردے اور اس پر چلا دینے کے بعد دوسری پگڈنڈیوں سے 
محفوظ رکھ۔
 آمین یا رب العالمین


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے