سفر کی ابتداء اور انتہا کیا ہے؟



سفر کی ابتداء و انتہا کیا ہے؟

ہمارے ذہنوں میں بحیثیت انسان بنیادی سوالات اٹھتے رہتے ہیں، بعض مرتبہ ہم انہیں نظر انداز کردیتے ہیں لیکن وہ اتنے اہم ہوتے ہیں کہ اگر انکے اطمینان بخش جوابات نہ ملنے پائیں تو آگے کی زندگی ہم اعتماد سے نہیں جینے پاتے۔
لیکن جب یہ سوالات بحیثیت مسلمان ہمارے دین و مذہب کے بنیادی عقائد سے تعلق رکھتے ہوں تو ضروری ہوجاتا ہیکہ ہم ان سوالوں کے جوابات کتاب و سنت کی روشنی میں معلوم کریں، اور کتاب و سنت ہی سے معلوم کرنا اسلئے ضروری ہے کہ انسانی علم، ظن و گمان پر مبنی ہے اور وحی کا علم یقینی اور بے خطا ہے جو ہمارے تمام حواس خمسہ (سننے، دیکھنے، بولنے، چھونے، سونگھنے و محسوس کرنے،) اور عقل و منطق سے بھی اوپر چیزوں اور باتوں کی درست و معقول رہنمائی کرتا ہے اور کیوں نہ کرے کہ یہ کائنات کو وجود دینے والے خالقِ انس و جن کی طرف سے اپنے نیک اور سچے بندوں پر اتارا گیا علم ہوتا ہے۔ 

بنیادی سوالات
١) ہم اس دنیا میں آنے سے پہلے کہاں تھے؟ یعنی اس عالم رنگ و بو میں کہاں سے تشریف لائے؟ 
٢) ہم اس دنیا میں کیوں اور کس مقصد سے آئے؟ 
٣) مرنے کے بعد ہم کہاں چلے جاتے ہیں؟ 

درج ذیل سطور میں بالترتیب انہیں ملاحظہ فرمائیں۔

١) آدمؑ کا زمین پر آنا۔
اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو عناصر اربعہ بطور خاص مٹی سے پیدا فرمایا، اور پیدائش کا مقصد بیان فرمایا کہ انہیں زمیں پر بھیجنا ہے تاکہ یہ آدمؑ زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام پر خود بھی عمل کریں اور اپنی طاقت کے مطابق دوسروں سے بھی عمل کروانے کی کوشش کریں، خلیفہ و جانشین ہونے کا یہی مطلب علماء تفسیر نے بیان فرمائے ہیں۔ 
ارشاد باری ہے: وَاِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلٰٓٮِٕكَةِ اِنِّىۡ جَاعِلٌ فِى الۡاَرۡضِ خَلِيۡفَةً ؕ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(آسان ترجمۂ قرآن - سورۃالبقرة - آیت 30)
تفسیر
آیت میں خلیفہ سے مراد انسان ہے اور اس کے خلیفہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام پر خود بھی عمل کرے اور اپنی طاقت کے مطابق دوسروں سے بھی عمل کروانے کی کوشش کرے۔

پھر حکمتِ الہی سے آدمؑ کو دنیا میں بھیجنے کے اسباب بنے اور واقعۂ آدم و ابلیس ظہور پذیر ہوا، جس کے سبب آدم و حوا علیہما السلام اور ملعون ابلیس دنیا میں بھیجے گئے اور آدم و حوا علیھما السلام سے انکے بعد توالد و تناسل کے ذریعے آپ کی تمام اولاد تا قیامت آتی رہے گی۔
ارشاد باری ہے: وَقُلۡنَا اهۡبِطُوۡا بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَلَـكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيۡنٍ. 
ترجمہ: اور ہم نے ( آدم، ان کی بیوی اور ابلیس سے) کہا : اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے، اور تمہارے لئے ایک مدت تک زمین میں ٹھہرنا اور کسی قدر فائدہ اٹھانا (طے کردیا گیا) ہے۔
تفسیر
اس واقعہ کے نتیجے میں آدم (علیہ السلام) اور ان کی اہلیہ کو جنت سے اور شیطان کو آسمانوں سے نیچے زمین پر اترنے کا حکم دے دیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا کہ انسان اور شیطان کے درمیان رہتی دنیا تک دشمنی قائم رہے گی اور زمین کا یہ قیام ایک معین مدت تک ہوگا جس میں کچھ دنیوی فائدے اٹھانے کے بعد سب کو بالآخر اللہ تعالیٰ کے پاس دوبارہ پیش ہونا ہوگا۔
(آسان ترجمۂ قرآن - سورۃالبقرة - آیت 36)

مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ
آدمؑ براہ راست جنت سے زمین پر اتارے گئے اور انکی ذریت کو عالم ارواح (روحوں کے ٹہرے رہنے کے مقام) سے باری باری تا قیامت دنیا میں بھیجا جاتا رہے گا۔

٢) روح کیا ہے؟ 
اللہ پاک کا حکم ہے۔
اور انسان کا بدن جو ماں کے بطن میں تخلیق پاتا ہے گویا یہ روح کا لباس ہے جو گوشت پوست کا ہوتا ہے، جس کی اصل مٹی ہے، بالکل اسی طرح ہے جس طرح جنوں کی روح کا لباس آگ سے تخلیق پایا اور فرشتوں کا نور سے، انسان خاکی مخلوق تو جن ناری اور فرشتے نوری مخلوق کہلائے۔
دنیا میں بظاہر جسم کارفرما ہیں، ہاتھ ہلتے ہیں، پیر چلتے ہیں، منہ سے بولا جاتا ہے، آنکھیں دیکھتی ہیں، کانوں سے سنا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جسم میں روح کار فرما ہے۔ کان بھی ہوں گے لیکن سنیں گے نہیں، آنکھیں ہوں گی لیکن دیکھیں گی نہیں، ہاتھ ہوں گے لیکن حرکت کریں گے نہیں، پیر ہوں گے لیکن چلیں گے نہیں، اعضائے بدن تو ہوں گے لیکن ہوں گے خاموش، کیونکہ اصل رو ح ہے، وہ ہوگی تو سب چیزیں حرکت میں آئیں گی، اگر نہیں ہوگی تو حرکت نہیں کریں گی۔

روح اللہ تعالیٰ کے ایک فیصلے کا نام ہے، اس سے زیادہ جانا نہیں جا سکتا۔ انسان کے پاس جو علم ہے وہ بہت ہی کم ہے جبکہ روح کو سمجھنے کےلیے زیادہ علم چاہیے جو مخلوق کی شان کے لائق نہیں ہے۔
اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
ترجمہ: اور (اے پیغمبر) یہ لوگ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ : روح میرے پروردگار کے حکم سے (بنی) ہے۔ اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بس تھوڑا ہی سا علم ہے۔
تفسیر:
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتحان لینے کے لئے یہ سوال کیا تھا کہ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، اور جواب میں اتنی ہی بات بیان فرمائی گئی ہے جو انسان کی سمجھ میں آسکتی ہے، اور وہ یہ کہ روح کی پیدائش براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئی ہے، انسان کے جسم اور دوسری مخلوقات میں تو یہ بات مشاہدے میں آجاتی ہے کہ ان کی پیدائش میں کچھ ظاہری اسباب کا دخل ہوتا ہے، مثلاً نر اور مادہ کے ملاپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے، لیکن روح ایسی چیز ہے جس کی تخلیق کا کوئی عمل انسان کے مشاہدے میں نہیں آتا، یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آتی ہے، اس سے زیادہ روح کی حقیقت کو سمجھنا عقل کے بس میں نہیں ہے۔ اس لئے فرمادیا گیا ہے کہ تمہیں بہت تھوڑا علم عطا کیا گیا ہے اور بہت سی چیزیں تمہاری سمجھ سے باہر ہیں۔

٣) عہد الست (عہدِ فطرت و اقرارِ ربوبیت)
عالم ارواح میں سب سے پہلے انسان آدم اور انکی اولادوں کی پشت سے قیامت تک آنے والے انسانوں کو اللہ پاک نے نکالا، اپنے سامنے حاضر کیا اور ان سے اپنے رب اور پروردگار ہونے کا اقرار لیا یہ کہتے ہوئے کہ 'کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ چونکہ عالم ارواح میں انسانوں کو اللہ پاک کی پہچان و معرفت حاصل تھی، انسانوں نے اقرار کرتے ہوئے جواب دیا کہ کیوں نہیں! آپ ہی ہمارے رب اور پالنہار ہیں اور ہم اس بات کے گواہ ہیں، یہ اللہ نے اس لیے کیا کہ مبادا قیامت کو ہم عذر نہ کریں کہ ہم تو اس سے بیخبر ہی رہے۔ اس طرح تمام انسانوں کو اپنے اوپر گواہ بنایا، اور اسی عہد و اقرار کی یاددہانی کیلئے انبیاء و رسولوں کو ہر زمانے میں ہر قوم میں بھیجا جاتا رہا ہے، تاکہ اللہ پاک کے یہاں انتہائی ناپسندیدہ عمل شرک میں ملوث ہونے کے بعد کوئی انسان یہ نہ کہے کہ یہ تو میرے باپ دادوں نے کیا تھا، انکو دیکھ کر ہم نے کیا، بلکہ شرک سے بچنے اور توحید پر قائم رہنے کیلئے اللہ پاک نے ہر ہر انسان سے عہد لیا ہوا ہے، اللہ پاک نے آنکھ کان اور دل و دماغ کی نعمتوں کی قدر کرنے اور ان سے صحیح کام لینے کی دعوت دی کہ دین کے معاملے میں لکیر کے فقیر بن کر نہ چلو کہ جن کو باپ دادا پوجتے آئے بے سمجھے بوجھے تم بھی انہی کو پوجتے رہو، یاد رہے کہ جو لوگ اپنے دل و دماغ کی صلاحیتوں اور اپنے سمع و بصر کی قوتوں سے کام نہ لیں گے اور تذکیر و تنبیہ کے باوجود ٹھوکریں کھاتے پھریں گے، اللہ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔ جس کی تفصیل قرآن پاک میں سورۃ الأعراف میں موجود ہے؛
 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّكَ مِنۡۢ بَنِىۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُهُوۡرِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ وَ اَشۡهَدَهُمۡ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ‌ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّكُمۡ‌ ؕ قَالُوۡا بَلٰى‌ ۛۚ شَهِدۡنَا ‌ۛۚ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنۡ هٰذَا غٰفِلِيۡنَ
ترجمہ: اور (اے رسول ! لوگوں کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب تمہارے پروردگار نے آدم کے بیٹوں کی پشت سے ان کی ساری اولاد کو نکالا تھا، اور ان کو خود اپنے اوپر گواہ بنایا تھا، (اور پوچھا تھا کہ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا تھا کہ : کیوں نہیں ؟ ہم سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ (اور یہ اقرار ہم نے اس لیے لیا تھا) تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ : ہم تو اس بات سے بیخبر تھے۔

اَوۡ تَقُوۡلُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَشۡرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنۡ قَبۡلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنۡۢ بَعۡدِهِمۡ‌ۚ اَفَتُهۡلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ. 
ترجمہ: یا یہ نہ کہہ دو کہ : شرک (کا آغاز) تو بہت پہلے ہمارے باپ دادوں نے کیا تھا، اور ہم ان کے بعد انہی کی اولاد بنے۔ تو کیا آپ ہمیں ان کاموں کی وجہ سے ہلاک کردیں گے جو غلط کار لوگوں نے کیے تھے ؟

وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ وَلَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نشانیوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ (حق کی طرف) پلٹ آئیں۔

تفسیر 
آیات کریمہ میں جس عہد کے لینے کا ذکر ہے، حدیث میں اس کی تشریح یہ آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد ان کی پشت سے جتنے انسان پیدا ہونے والے تھے ان سب کو ایک جگہ اس طرح جمع فرمایا کہ وہ سب چیونٹیوں کے برابر جسم رکھتے تھے، پھر ان سے یہ عہد لیا کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے ہیں ؟ سب نے اقرار کیا کہ بیشک وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب تسلیم کرتے ہیں (روح المعانی بحوالہ نسائی وحاکم و بیہقی وغیرہ) جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو مان کر ان پر عمل کریں گے، اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے ہی ان سے اپنی اطاعت کا اقرار لے لیا تھا، دنیا میں ایسے حضرات بھی ہوئے ہیں جن کو یہ واقعہ دنیا میں آنے کے بعد بھی یاد رہا ہے مثلاً حضرت ذوالنون مصریؒ سے ان کا یہ ارشاد منقول ہے کہ : یہ عہد مجھے ایسا یاد ہے گویا اس وقت سن رہا ہوں۔ (معارف القرآن ج : 4، ص 115) لیکن یہ درست ہے کہ چند مستثنیات کو چھوڑ کر باقی انسان اس واقعے کو ایک عہد کی شکل میں تو بھول چکے ہیں مگر کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ یاد نہ رہنے کے باوجود اپنا طبعی اثر چھوڑ جاتے ہیں، یہ اثر آج بھی دنیا کے اکثر وبیشتر انسانوں میں موجود ہے کہ وہ اس کائنات کے ایک پیدا کرنے والے پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی عظمت وکبریائی کے گن گاتے ہیں، جو لوگ مادی خواہشات کے گرداب میں پھنس کر اپنی فطرت خراب کرچکے ہوں ان کی بات تو اور ہے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت ہر انسان کی فطرت میں سمائی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کبھی فطرت سے دور کرنے والے بیرونی عوامل دور ہوتے ہیں تو انسان حق کی طرف اس طرح دوڑتا ہے جیسے اس کو اپنی کھوئی ہوئی پونجی اچانک مل گئی ہو۔
آسان ترجمۂ قرآن - الأعراف - آیت 172 تا 174.

٤) عالم انتظار 
عالم ارواح میں عہدِ الست لینے کے بعد وہاں سے روحوں کو انکی باری آنے پر دنیا میں اسی اللہ پاک کی ربوبیت و پالنہار ماننے اور اپنی عبودیت و بندگی پر قائم رہنے اور شرک و کفر سے بچے اور دور رہنے کے امتحان و آزمائش کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ 

٥) اس دنیا میں آمد اور گوشت پوست کا لباس 
اس دنیا میں ہم اور آپ کو بھیجنے کیلئے ہماری روحوں کو باپ کے توسط سے ماں کے پیٹ میں اللہ پاک محض اپنی قدرت سے گوشت و پوست کا بدن بطورِ لباس عطا فرماتے ہیں اور اعضاء انسانی کو بہترین سانچے میں ڈھالتے ہیں؛ ارشاد ہے: 
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاللّٰهُ اَخۡرَجَكُمۡ مِّنۡۢ بُطُوۡنِ اُمَّهٰتِكُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ شَيۡـــًٔا ۙ وَّ جَعَلَ لَـكُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصاٰرَ وَالۡاَفۡـِٕدَةَ‌ ۙ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ. 
ترجمہ: اور اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے اس حالت میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے، اور تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل پیدا کیے، تاکہ تم شکر ادا کرو۔
القرآن - سورۃ النحل - آیت 78

٥) عالم برزخ (عالمِ قبر)
اس دنیا میں ہم بھیجے جاتے ہیں، ہمارا دنیا میں آنا ہماری اپنی مرضی سے نہیں ہوتا ہے اسی طرح ہم کچھ مدت ساٹھ ستر سال گذارتے ہیں اور پھر ہماری روح ہمارے بدن سے کھینچ لی جاتی ہے جسے موت اور مرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور اس موت کے آنے اور اس دنیا سے انتقال کرجانے میں بھی ہماری مرضی شامل نہیں ہوتی، اس کے بعد ہمارے بدن کو قبر میں دفنا دیا جاتا ہے، اور روح کو فرشتے آسمانوں کی طرف لے جاتے ہیں، قبر میں ہمارا بدن دفن کردینے کے بعد ہماری روح بھی بدن میں واپس کردی جاتی ہے اور پھر ہمیں جس مقصد اور جس امتحان کیلئے دنیا میں بھیجا گیا تھا قبر میں اس کے متعلق تین سوالات ہوتے ہیں، جس کی درج ذیل تفصیل حدیث مبارکہ میں ملتی ہے؛ 
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ " قَالَ: " فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولَانِ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ «زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ» فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا} الْآيَةُ قَالَ: " فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِي، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ " قَالَ: «فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا» قَالَ: «وَيُفْتَحُ لَهُ فِيهَا مَدَّ بَصَرِهِ» قَالَ: «وَإِنَّ الْكَافِرَ» فَذَكَرَ مَوْتَهُ قَالَ: " وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ: لَهُ مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِي، فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ كَذَبَ، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ " قَالَ: «فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا» قَالَ: «وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ» زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ قَالَ: «ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهُ أَعْمَى أَبْكَمُ مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا» قَالَ: «فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ فَيَصِيرُ تُرَابًا» قَالَ: «ثُمَّ يُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ» (رواه احمد وابو داؤد) 
ترجمہ : حضرت براء بن عازب سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، کہ آپ نے (ایک سلسلہ کلام میں مردہ کے سوال و جواب اور عالمِ برزخ یعنی قبر کے ثواب و عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے ) 
فرمایا : (اللہ کا مؤمن بندہ اس دنیا سے منتقل ہو کر جب عالم برزخ میں پہنچتا ہے ، یعنی قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو) اس کے پاس اللہ کے دو فرشتے آتے ہیں ، وہ اس کو بٹھاتے ہیں ، پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ، پھر پوچھتے ہیں ، کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے ، پھر پوچھتے ہیں ، کہ یہ آدمی جو تمہارے اندر (نبی کی حیثیت سے) کھڑا کیا گیا تھا (یعنی حضرت محمد ﷺ) ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ وہ کہتا ہے وہ اللہ کے سچے رسول ہیں ، وہ فرشتے کہتے ہیں کہ تمہیں یہ بات کس نے بتلائی ؟ (یعنی ان کے رسول ہونے کا علم کس ذریعہ سے ہوا ؟) وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی (اس نے مجھے بتلایا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں) تو میں ایمان لایا ، اور میں نے ان کی تصدیق کی (رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ) مؤمن بندہ کا یہی جواب ہے ، جس کے متعلق قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ
اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو سچی پکی بات (یعنی صحیح عقیدہ اور صحیح جواب) کی برکت سے ثابت رکھے گا ، دنیا میں اور آخرت میں ۔
یعنی وہ گمراہی سے ، اور اس کے نتیجہ میں آنے والے عذاب سے محفوظ رکھے جائیں گے ۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”مؤمن بندہ فرشتوں کے مذکورہ بالا سوالات کے جب اس طرح ٹھیک ٹھیک جوابات دے دیتا ہے)“ تو ایک ندا دینے والا آسمان سے نداس دیتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے اعلان کرایا جاتا ہے) کہ میرے بندے نے ٹھیک بات کہی ، اور صحیح صحیح جوابات دئیے ، لہذا اس کے لئے جنت کا فرش کرو ، اور جنت کا اس کو لباس پہناؤ اور جنت کی طرف اس کے لئے ایک دروازہ کھول دو ، چناں چہ وہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے ، اور اس سے جنت کی خوشگوار ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں ، اور جنت میں اس کے لئے منتہائے نظر تک کشادگی کر دی جاتی ہے (یعنی پردے اس طرح اٹھا فئیے جاتے ہیں کہ جہاں تک اس کی نگاہ جائے ، وہ جنت کی بہاروں اور اس کے نظاروں سے لذت اور فرحت حاصل کرتا رہے ۔) (یہ حال تو رسول اللہ ﷺ نے مرنے والے سچے اہل ایمان کا بیان فرمایا) ، اس کے بعد ایمان نہ لانے والے (کافر) کی موت کا ذخر آپ نے کیا ، اور فرمایا : (مرنے کے بعد) اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے ، اور اس کے پاس بھی دو فرشتے اسٓتے ہیں ، وہ اس کو بٹھاتے ہین ، اور اس سے بھی پوچھتے ہیں ، کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ (خدا ناشناس) کہتا ہے : ”ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا“ پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ دین تیرا کیا تھا ؟ وہ کہتا ہے کہ ”ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا“ ۔ پھر فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ یہ آدمی جو تمہارے اندر (بحیثیت نبی کے) مبعوث ہوا تھا ، تمہارا اس کے بارے میں کیا خیال تھا ؟ وہ پھر بھی یہی کہتا ہے : ”ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا“ ۔ (اس سوال و جواب کے بعد) آسمان سے ایک ندا دینے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکارتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا (یعنی اس نے فرشتوں کے سوال کے جواب میں اپنا بالکل انجان اور بے جُرم ہونا ظاہر کیا یہ اس نے جھوٹ بولا ، کیوں کہ واقعے میں وہ 
اللہ کی توحید کا ، اس کے دین اسلام کا اور اس کے رسول برحق کا منکر تھا) پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی ندا کرے گا کہ اس کے لئے دوزخ کا فرش کرو ، اور دوزخ کا اس کو لباس پہناؤ ، اور اس کے لئے دوزخ کا ایک دروازہ کھول دو (چناں چہ یہ سب کچب کر دیا جائے گا) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ، کہ : ”(دوزخ کے اس دروازے سے) اس کو برابر دوزخ کی گرمی اور دوزخ کی لپیٹیں اور جلانے جھلسانے والی ہوائیں اس کے پاس آتی رہیں گی اور اس قبر اس پر نہایت تنگ کر دی جائے گی ، جس کی وجہ سے (اتنا دباؤ پڑے گا ، کہ) اس کے سینے کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جائیں گی ، پھر اس کو عذاب دینے کے لئے ایک ایسا فرشتہ اس پر مسلط کیا جائے گا ، جو نہ کچھ دیکھے گا ، نہ سنے گا ، اس کے پاس لوہے کی ایسی مونگری ہو گی ، کہ اگر اس کی ضرب کسی پہاڑ پر لگائی جائے تو وہ بھی مٹی کا ڈھیر ہو جائے ، وہ فرشتہ اس مونگری سے اس پر ایک ضرب لگائے گا ، جس سے وہ اس طرح چیخے گا ، جس کو جن و انس کے علاوہ وہ سب چیزیں سنیں گی ، جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہیں ، اس ضرب سے وہ کاک ہو جائے گا ، اس کے بعد اس میں پھر روح ڈالی جائے گی ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد) 

٦) عالم آخرت و دارالجزاء
اس کے بعد عالم برزخ میں حشر کے برپا ہونے تک روحوں کو ٹھہرایا جاتا ہے جس طرح سے اس دنیا میں آنے کے لیے عالم ارواح میں روحوں کو رکھا جاتا ہے، قیامت کا دن آجانے اور حشر برپا ہوجانے کے بعد میدان حشر میں ہماری پوری زندگی کا حساب لیا جائے گا اور تفصیلی سوالات جو پوری زندگی پر محیط ہونگے ہم سے پوچھے جائیں گے۔
 اللہ پاک کا ہم پر کتنا احسان ہے کہ یہ اہم ترین سوالات ہمیں بتا دیے گئے، قبر کے تین سوالات کی طرح ان سوالات کو بھی نبی رحمت ﷺ نے بیان فرمادیئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لاَ تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ ، عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلاَهُ ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ . ( رواه الترمذى ) 
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روای ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن ( جب حساب کے لئے بارگاہِ خداوندی میں پیشی ہوگی ، تو ) آدمی کے پاؤں سرک نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ کر لیا جائے گا ۔ ایک اس کی پوری زندگی اور عمر کے بارے میں کہ کن کاموں میں اس کو ختم کیا ۔ اور دوسرا خصوصیت سے اس کی جوانی ( اور جوانی کی قوتوں ) کے بارے میں کہ کن مشاغل میں جوانی اور اس کی قوتوں کو بوسیدہ اور پرانا کیا ، اور تیسرا اور چوتھا مال و دولت کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں اور راستوں سے اس کو حاصل کیا تھا اور کن کاموں اور کن راہوں میں اس کو خرچ کیا۔ اور پانچواں سوال یہ ہو گا کہ جو کچھ معلوم تھا اس کے بارے میں کیا عمل کیا ( جامع ترمذی ) 


٧) انسان بیکار و بے مقصد پیدا نہیں کیا گیا
کتاب و سنت کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوا کہ
روح اللہ پاک کا حکم ہے اور وہ بھی اللہ ہی کی مخلوق ہے، اور سب سے پہلے عالم ارواح میں ہماری روحوں سے اللہ پاک نے اپنے رب و پروردگار ہونے کا اقرار لیاہے، جسے عہدِ الست کہا جاتا ہے، اور پھر مرنے کے بعد قبر میں عالم برزخ میں ہم سے اسی کے رب ہونے کے متعلق سوال کیا جائے گا، جس کا عہد لیکر ہمیں دنیا میں بھیجا گیا ہے۔
عہد الست کے پیمان و اقرار اور اللہ پاک کی طرف سے خود ہمیں اس پر گواہ بنانے اور قبر کے سوالات سے ہمیں معلوم ہوجاتا ہیکہ دنیا میں ہمیں کسی مقصد کیلئے پیدا کیا گیا ہے، ہماری یہ زندگی بیکار و بے مقصد نہیں ہے، اللہ پاک نے اسی بات کو قرآن پاک میں ہم انسانوں سے بیان کرتے ہوئے سوال فرمایا ہے: 
اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰكُمۡ عَبَثًا وَّاَنَّكُمۡ اِلَيۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ
ترجمہ: بھلا کیا تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمہیں یونہی بےمقصد پیدا کردیا، اور تمہیں واپس ہمارے پاس نہیں لایا جائے گا ؟
تفسیر
جو لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، ان کے موقف کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بےمقصد پیدا کردی ہے۔ یہاں جس کے جو جی میں آئے کرتا رہے۔ اس کا کوئی بدلہ کسی اور زندگی میں ملنے والا نہیں ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی حکمت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی غلط بات منسوب کرے، لہذا آخرت پر ایمان اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا منطقی و عقلی تقاضا ہے۔
آسان ترجمۂ قرآن - سورۃ المؤمنون - آیت 115

٨) مقصدِ زندگی
ہم انسانوں بلکہ جنات کی پیدائش کا مقصد بھی اللہ پاک کی بندگی ہے۔ 
مقصدِ زندگی اللہ رب العزت کی بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی 
وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِيَعۡبُدُوۡنِ
ترجمہ: میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔
(الذاریات:٥٦) 
ہمیں یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اپنی عبادت و اطاعت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہی چیز ہمارے پیدا کئے کا مقصد اور ہماری زندگی کا نصب العین ہے جس کا پورا ہونا ہر شکل میں مطلوب ہے۔ اس کی خاطر تو ہم ہر چیز قربان کرسکتے ہیں لیکن اس کو کسی چیز پر بھی قربان نہیں کرسکتے۔

وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ اس آیت میں لفظ عبادت، اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے یعنی رب کی بندگی اور اس کے احکام کی اطاعت۔ اس حقیقت کا پتہ بتادینے سے مقصود، زندگی کے اصل نصب العین کو سامنے رکھ دینا ہے تاکہ ہر انسان واضح طور پر جان لے کہ اسے کس مقصد کے لئے جینا اور کس مقصد کے لئی مرنا ہے۔ یہ بات معلوم رہے کہ خدا کی بندگی اس لئے مطلوب نہیں ہے کہ خدا کسی کی بندگی کا محتاج ہے بلکہ قرآن میں جابجا یہ تصریح ہے کہ بندے ہی اس کی بندگی کے محتاج ہیں اس لئے کہ انسان کی رفعت وبلندی کا زینہ یہ بندگی ہی ہے۔ اگر اس بندگی سے ہم ہٹ جائیں تو پھر ہماری حیثیت حیوانات سے زیادہ نہیں رہ جاتی بلکہ ہم ان سے بھی نچلے درجے میں گرجاتے ہیں۔
 یہاں جنوں اور انسانوں دونوں کا ذکر ایک درجہ کی مخلوق کی حیثیت سے کیا ہے، اس لئے کہ ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اختیار کے شرف سے مشرف فرمایا ہے اور دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں برابر کے درجے میں ذمہ دار اور رب کی بندگی کا حق ادا کرنے کی صورت میں یکساں اجروشرف کے حق دار ہیں۔ 

خلاصہ کلام
کہاں سے آنا، کہاں جانا اور کیوں آنا ہوا؟ 
کتاب و سنت کی روشنی میں درج بالا تشریحات سے ہمیں خوب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ ہم اس دنیا میں کہاں سے آئے، کہاں جانا ہے اور کیوں اس دنیا کے اندر ہمارا وجود ہوا ہے؟ 
پہلے انسان آدم اس دنیا میں اپنی زوجہ حوا اور کھلے دشمن دشمن گروہ کی شکل میں زمین پر اتارے گئے، ہم عالمِ ارواح سے اپنی باری آنے پر اس دنیا میں آئے، اپنے رب سے کیے ہوئے عہدِالست یعنی اسکی ربوبیت کے اقرار کو نبھانے کے لئے اور قبر و حشر میں کیے جانے والے آٹھ سوالات کے جوابات کی عملی تیاری کرنے کے لیے بھیجے گئے، اور واپس ہمیں عالمِ برزخ سے ہوتے ہوئے حشر کے دن اپنے پیدا کرنے والے اللہ پاک کے حضور اپنی زندگی کا حساب دینا ہے۔

اِنَّ اِلَيۡنَاۤ اِيَابَهُمۡۙ‏
ترجمہ: یقین جانو ان سب کو ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔
ثُمَّ اِنَّ عَلَيۡنَا حِسَابَهُمْ
ترجمہ: پھر یقینا ان کا حساب لینا ہمارے ذمے ہے۔
القرآن - سورة الغاشية - آیت 26
پی ڈی ایف فائل میں لنک ➖
https://drive.google.com/file/d/1oFPL8FLqWrg_PAhkvKKsus6q4jpLc2tF/view?usp=drivesdk

اللہ پاک ہمیں صحیح عقیدہ و کامل ایمان کی دولت نصیب فرمائے اور خاتمہ بالخیر مقدر فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے