سودی اور غیر شرعی کاروبار

قسط 4 )
معاشی مندی کی دینی وجوہات

٭) سودی اور غیر شرعی کاروبار :
سود لینا اور سود دینا دونوں قرآن و حدیث کی قطعی نصوص سے حرام ہیں، حدیثِ مبارک میں سودی لین دین کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے، سود کا انجام تباہی اور بربادی ہی ہے۔ سودی معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ اس گناہ کا اثر صرف براہِ راست سودی معاملہ کرنے والے دو اشخاص تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس سے متعلقہ افراد (جو کسی بھی طرح اس سودی معاملہ میں معاون بنتے ہیں، مثلاً: لکھنے والا، گواہ، وغیرہ) وہ سب اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق بن جاتے ہیں۔ سودی معاملہ دنیا اور آخرت کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے، عموماً جو لوگ سود پر قرض لے کر کاروبار کرتے ہیں، ساری زندگی سود سے پیچھا چھڑانے میں گزرجاتی ہے، بلکہ بکثرت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ سرمایہ مع نفع سب سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔اس لیے کاروبار کے لیے بھی سود لینا جائز نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے ؛ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ. (البقرۃ:۲۷۸ ،۲۷۹)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو ، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اعلان سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺکی طرف سے۔
  مشكاة المصابيح میں ہے:
"عن جابر قال: « لَعَنَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَقالَ: هُمْ سَوَاءٌ. » ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں۔". (مشکاۃ باب الربوا)

وفیہ ایضاً: "وعن أبي هريرة ؓ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءا أيسرها أن ینکح الرجل أمه» ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سود کے (گناہ کے) ستر حصے ہیں، ان میں سے کم تر گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح (زنا) کرے." (باب الربوا)

جاری ---------
٭) نمازوں کا چھوڑنا :
_____________________ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے