خودکشی اور ہمارا سماج||



#سماج سدھار مہم مالیگاؤں (8)

خودکشی اور ہمارا سماج||

    خودکشی بھی ہمارے سماج میں بڑھتا ہوا گناہ بنتا جا رہا ہے اور لوگوں کے اس بڑے گناہ کے نتائج وعواقب سے بےخبر ہونے کی وجہ سے اس کی جرات بڑھتی جارہی ہے، اس موضوع پر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کے اہم مضمون کی تسہیل وتلخیص پیش ہے۔
 
روح کیا ہے؟
       زندگی بہت بڑی نعمت ہے، ایسی نعمت جس کا کوئی بدل نہیں، جو جانے کے بعد واپس نہیں آتی ، انسان یہ نعمت اپنی محنت اور کدوکاوش سے حاصل نہیں کرتا ؛ بلکہ کائنات کے رب کا عطیہ ہے، ایسا عطیہ جو علم و تحقیق کی اتنی ترقی کے باوجود ایک سربستہ راز ہے، علم و سائنس کی ترقی اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ انسان اپنے ایک ایک عضو کے بارے میں جاننے لگا ہے کہ اس کا حجم کتنا ہے؟ سر کے بال سے پاؤں کے ناخن تک اس نے بدن کے ایک ایک انگ اوررگ و ریشہ کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے؛ لیکن آج بھی عقل اس گرہ کو کھولنے سے عاجز ہے اور قدرت کے رازِ سر بستہ سے پردہ اٹھانے میں ناکام ہے کہ آخر روح کی حقیقت کیا ہے؟یہ جسم میں کیوں کر آتی ہے اور کہاں سے آتی ہے؟ پھر کس طرح چپ چاپ جسم کو داغِ فراق دے کر چلی جاتی ہے کہ نہ کوئی ہاتھ ہے، جو اسے تھام سکے، نہ کوئی حساس سے حساس مشینی آلات ہیں ، جو اس کو گرفتار کر سکیں، یا کم سے کم اس کی حقیقت کا ادراک ہی کر لیں، انسان کی یہ مجبوری اور علمی بے بسی خدا کا یقین دلاتی ہے اور ایمان میں تازگی پیدا کرتی ہے، اسی کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح (زندگی) کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمادیں کہ یہ میرے رب کے حکم اور فرمان سے عبارت ہے : ’’قُلْ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّی‘‘۔ ( بنی اسرائیل: ۸۵) 
 
جان کے مالک نہیں؛ امین ہیں :
    انسان اپنی ’’ زندگی ‘‘ کا خود مالک نہیں ہے ؛ بلکہ امین ہے، زندگی اس نے حاصل نہیں کی ہے؛ بلکہ اسے عطا فرمائی گئی ہے، یہ اس کے پاس خالق کائنات کی امانت ہے اور ممکن حد تک اس کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہے، اسلام نے دوسروں کی جان بچانے کا حکم دیا ہے ، اسی طرح انسان پر یہ بات بھی واجب ہے کہ وہ بحد امکان اپنی جان کی حفاظت کرے ؛ کیوں کہ زندگی اس کے پاس خدا کی امانت ہے اور امانت کی حفاظت اسلامی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے ؛ اسی لئے اسلام کی نگاہ میں ’’ خود کشی‘‘ بہت بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے، ایسا گناہ جو اس کو دنیا سے بھی محروم کرتا ہے اور آخرت سے بھی، خود قرآن مجید نے خود کشی سے منع فرمایا ہے ، ارشاد ہے : ’’ لا تقتلوا انفسکم : اپنے آپ کو قتل مت کرو ‘‘ (النساء: ۲۹)

خودکشی کی سزا :
       پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات ہیں جن میں نہایت سختی اور تاکید کے ساتھ خودکشی کو منع فرمایا گیا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خودکشی کی، وہ جہنم کی آگ میں بھی اسی طرح ہمیشہ گرتا رہے گا، اور جس شخص نے لوہے کے ہتھیار سے خود کو ہلاک کیا، وہ دوزخ میں بھی ہمیشہ اپنے پیٹ میں ہتھیار گھونپتا رہے گا۔ (بخاری، حدیث نمبر : ۵۷۷۸) ایک اور روایت میں ہے کہ گلا گھونٹ کر خودکشی کرنے والا جہنم میں ہمیشہ گلا گھونٹتا رہے گا اور اپنے آپ کو نیزہ مار کر ہلاک کرنے والا دوزخ میں بھی ہمیشہ اپنے آپ کو نیزہ مارتا رہے گا۔ ( بخاری ، حدیث نمبر : ۱۳۶۵ ، عن ابی ہریرۃؓ) حضرت طفیل بن عمر دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایک اور صاحب نے مدینہ ہجرت کی، وہ دوسرے صاحب بیمار پڑ گئے، تکلیف کی شدت کے باعث ان سے صبر نہ ہوسکا اور ایک ہتھیار سے اپنی اُنگلیوں کے جوڑ کاٹ لئے، رگیں کٹ گئیں اور خون اتنا بہہ گیا کہ انتقال ہوگیا، حضرت طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو خواب میں دیکھا کہ وہ بہتر حالت میں ہیں ؛ لیکن ان کے ہاتھ ڈھکے ہوئے ہیں، حضرت طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا کہ آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ ان صاحب نے کہا: اللہ نے ہجرت کی وجہ سے مجھے معاف کر دیا؛ لیکن میرے ہاتھوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ جس چیز کو تم نے خود بگاڑ لیا ہے، میں اسے درست نہیں کرسکتا، حضرت طفیل نے یہ خواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، آپ نے دُعاء فرمائی کہ بار الہا! ان کے ہاتھوں کو بھی معاف فرما دے ! (مسلم ، حدیث نمبر : ۱۱۶ ، عن جابر ؓ) صحابیٔ رسول حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کی قوموں میں ایک شخص کو زخم تھا، وہ تکلیف برداشت نہ کرسکا، چھری لی اور اس سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا، خون تھم نہ سکا اور موت واقع ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بندہ نے اپنی ذات کے معاملہ میں مجھ پر سبقت کرنے کی کوشش کی، اس لئے میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔ ( بخاری ، حدیث نمبر : ۳۴۶۳ ، مسلم ، حدیث نمبر : ۱۱۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت مجسم تھے؛ لیکن اس کے باوجود حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک شخص نے خودکشی کر لی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی۔ (مسلم ، حدیث نمبر : ۹۷۸ ، سنن ترمذی، حدیث نمبر : ۱۰۶۸) اسی لئے ایک جلیل القدر فقیہ اور محدث امام احمدؒ کا خیال ہے کہ خودکشی کرنے والے شخص پر عام لوگ تو نمازِ جنازہ پڑھیں گے؛ لیکن امام المسلمین نماز جنازہ نہیں پڑھے گا۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر : ۱۰۶۸ کے ذیل میں)
     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خودکشی اسلام کی نگاہ میں کتنا سنگین جرم ہے؟ 

خودکشی کیوں اور کون کرتا ہے؟ :
      خودکشی دراصل زندگی کے مسائل اور مشکلات سے راہِ فرار اختیار کرنا ہے اورآزمائشوں اور اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ نکلنے کی ایک غیر قانونی اور ایک غیر انسانی تدبیر ہے، بدقسمتی سے ایمان سے محرومی یا کمزوری کے باعث اس وقت پوری دنیا میں خودکشی کا رحجان بڑھتا جارہا ہے۔ خودکشی بنیادی طور پر ایمان کی کمزوری یا اس سے محرومی کی وجہ ہی سے کی جاتی ہے، جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہو، یقین کرتا ہو کہ خدا دشواریوں کی سیاہ رات سے آسانی اور اُمید کی صبحِ نو پیدا کرسکتا ہے، جو شخص تقدیر پر ایمان رکھتا ہو کہ خوش حالی اور تنگ دستی اور آرام و تکلیف اللہ ہی کی طرف سے ہے، صبر و قناعت انسان کا فرض ہے، اور جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو کہ زندگی کے مصائب سے تھکے ہوئے مسافروں کے لئے وہاں راحت و آرام ہے اور زندگی کی آزمائشوں سے راہِ فرار اختیار کرنے والوں کے لئے اللہ کی پکڑ اور عذاب ، وہ کیسے مشکل وقتوں میں خدا کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھنے یا بارگاہِ ربانی میں دست سوال پھیلانے اور خدا کی رحمت سے اُمید رکھنے کے بجائے مایوس ہو کر اپنے آپ کو ہلاک کرلے گا ؟؟

خودکشی کیسے روکی جائے؟
       ضرورت اس بات کی ہے کہ خودکشی کے اخلاقی اور سماجی نقصانات سے لوگ آگاہ ہوں، سماج میں لوگوں کی تربیت کی جائے کہ وہ تنگدستوں اور مقروضوں کے ساتھ نرمی اورتعاون کا سلوک کریں، گھر اور خاندان میں محبت اور پیار کی فضا قائم کریں اور باہر سے آنے والی بہو کو محبت کا تحفہ دیں، رسم و رواج کی جن زنجیروں نے سماج کو زخمی کیا ہوا ہے، ان کو کاٹنے کی کوشش کریں، شادی بیاہ کے مرحلوں کو آسان بنائیں، اور جو لوگ ذہنی تناؤ سے دو چارہوں اور مشکلات میں گھرے ہوئے ہوں، ان میں جینے اور مسائل و مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کریں، کہ بقولِ حضرت کلیم : زندگی بہت بڑی نعمت ہے، ایسی نعمت جس کا کوئی بدل نہیں، جو جانے کے بعد واپس نہیں آتی۔

سلگنا اور شئے ہے جل کے مر جانے سے کیا ہوگا
ہوا ہے کام جو ہم سے وہ پروانوں سے کیا ہوگا


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے