نمازوں کی چھٹی کیوں نہیں؟
✍ نعیم الرحمن ندوی
سال بھر میں ایسے مواقع آتے ہیں جن میں مدارس، اسکول، کالج اور تمام پیشوں، ڈیوٹیوں میں کچھ نہ کچھ ایام چھٹی کے ہوتے ہیں لیکن اللہ پاک کے اہم ترین فریضے "نماز پنجگانہ" میں کسی دن چھٹی نہیں، کسی وقت معافی نہیں، مکلف ہونے سے موت تک کسی حالت میں رخصت نہیں، بلکہ خوشی اور تہواروں میں تو اضافی نمازیں ہیں جیسے نماز دوگانہ؛ عیدین کی نمازیں۔
ایسا کیوں؟
شریعت کو بنانے والا العلیم؛ یعنی کامل علم والا ہے ساتھ ہی الحکیم؛ یعنی کامل حکمت والا بھی، جس طرح اس کی تخلیق میں کوئی عیب نہیں اسی طرح اس کے کسی حکم میں کوئی نقص نہیں، ایک ایک حکمِ شریعت میں سینکڑوں حکمتیں، ہزاروں مصلحتیں ہیں۔
مذکورہ بالا سوال پر بھی غور کرنے سے ایک اہم حکمت اور بڑی مصلحت سامنے آتی ہے کہ نماز؛ آخری عدالت میں "رب کے حضور پیشی" کو ہر وقت یاد دلانے والی اور غفلت و خدا فراموشی سے بچانے والی ہے۔ جیسا کہ نبی علیہ السلام کی ہدایت ہے : رب کی عبادت ایسے کرو گویا تم اپنے رب کو دیکھ رہے ہو ورنہ پھر اپنے کو اس کے حضور کھڑا محسوس کرو کہ پروردگار تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ (أن تعبد اللہ کأنک تراہ فان لم تکن تراہ فانک یراک)
چند گھنٹوں کی زندگی :
دنیا کی زندگی؛ محشر کے ایک دن کے مقابلے میں اتنی ہی ہے جتنی ہماری اوسطاً ساٹھ ستر سالہ زندگی کے مقابلے میں دن کا ایک پہر یا دو پہر یعنی تین سے چھ گھنٹے۔ ___ میدان محشر کے مجرمین سے جب باری تعالی دریافت فرمائیں گے: زمین میں گنتی کے کتنے سالوں رہ کر آئے ہو؟ (کم لبثتم فی الارض عدد سنین. المؤمنون : 114 _ 112) جب کہ محشورین؛ روزِ محشر سے گزر رہے ہونگے اسی اعتبار سے جواب دیں گے اور سالوں کو چھوڑ کر دنوں کے حساب میں کہیں گے : ہم تو فقط ایک دن یا اس سے بھی کم وقفہ رہ کر آئے ہیں، گننے والوں سے بھی پوچھ لیں۔ (قالوا لبثنا یوما او بعض یوم فسئل العادین.) باری تعالی فرمائیں گے: واقعی تم تھوڑی مدت سے زیادہ نہیں رہے۔ کیا خوب ہوتا اگر یہ بات تم نے (اس وقت) سمجھ لی ہوتی۔ (قال ان لبثتم الا قلیلا لو انکم کنتم تعلمون. )
حق جل مجدہ نے خود ہی ایک جگہ ارشاد فرمایا "اس دن انہیں ایسا معلوم ہوگا کہ انہوں نے تو گویا صبح و شام کی چند گھڑیاں ہی دنیا میں گزاری ہیں۔ " (کأنھم یوم یرونہا لم یلبثوا الا عشیۃ او ضحاھا. النازعات: 46)
غفلت میں نہ پڑجائے! :
دنیا کی یہ 60 _ 70 سالہ زندگی آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے، اب اگر اِس میں اُس کی تیاری سے غافل کرنے والی چیزوں میں پڑ کر آخرت کو فراموش کردیا جائے تو بڑا بھاری نقصان ہوسکتا ہے، اس لیے چوبیس گھنٹوں میں پانچ وقت کی نمازیں لازمی طور پر، تسلسل کے ساتھ، فرض کے درجے میں رکھی گئیں تاکہ انسان کو اپنے "رب کے حضور پیشی" سے ذرا غفلت نہ ہو، مقصدِ حیات کو بھول نہ بیٹھے، دنیا کے دھوکے میں نہ پڑ جائے۔
نمازوں میں پانچ وقت کھڑا ہونا پروردگار کے حضور کھڑے ہونے کو یاد دلاتا ہے، یہاں پانچ وقتوں کا حاضر باش اُس وقت کو یاد رکھتا ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں بار بار مختلف الفاظ اور اسلوب میں کیا گیا ہے۔ حقیقت میں "قیامت یعنی پیشی کیلئے کھڑے ہونے کا دن" بہت ہی بھاری چیز اور بہت ہی یاد رکھنے والا دن ہے۔ (الا یظن اولئك أنهم مبعوثون، ليوم عظيم، یقوم الناس لرب العالمین. المطففین : 6)
خوشی کے دنوں میں، فرصت کے اوقات میں انسان غفلت میں پڑ سکتا ہے اور یہ بات بہت بھاری پڑ سکتی ہے۔ پروردگار بندوں کو بھولنے نہیں دینا چاہتا، بڑا کریم ہے، مؤمنین کو جنت کا راستہ آسان کرنے والا ہے۔ (فسنیسرہ للیسری) اگر انسان غافل ہوجاتا ہے تو بہت جلد شیطان اچک لیتا ہے، اور یہی غفلت ہوگی جو انسانوں کی بڑی تعداد کو جہنم رسید کر دے گی تب باری تعالی غافل انسانوں کو یاد دلائیں گے کہ بندے : لقد کنت فی غفلۃ من ہذا فکشفنا عنک غطاءک فبصرک الیوم حدید. اِس چیز کی طرف سے تُو غفلت میں تھا، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔ (ق: 22) __
جاری ____________
0 تبصرے