بچپن سے جوانی اور ادھیڑی سے بڑھاپا


بچپن سے جوانی اور ادھیڑی سے بڑھاپا
(حکمت الہی کی جلوہ گری)
✍ نعیم الرحمن ندوی

عرفانِ نفس کا حصول :
      اللہ پاک کامل حکمت کے مالک ہیں، اسی لئے اللہ کا کوئی کام حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوسکتا، اللہ پاک نے یہ نظام بنایا ہے کہ انسان بچپن سے لڑکپن اور جوانی تک اوپر اٹھتا ہے، کمزوری سے طاقت کی طرف بڑھتا ہے۔ کچھ عرصہ توانائی سے بھرپور مدت؛ __ جوانی سے ادھیڑی __ کی گزارتا ہے، اس کے بعد واپسی کا سفر توانی سے ناتوانی، قوت سے کمزوری کی طرف شروع ہوجاتا ہے، آخر بڑھاپے میں بچپن (5) اور پچپن (55) برابر ہوجاتا ہے یعنی طفولت اور کہولت کی سطحِ ناتوانی یکساں ہوجاتی ہے۔
     بچپن کی اٹھان اور ادھیڑی کی ڈھلان میں فرق صرف یہ ہے کہ بچپن سے جوانی غیر شعوری طور پر ہوتی ہے اور ادھیڑی سے واپسی عقل و شعور کے ساتھ ہوتی ہے جس میں خود انسان کے اوپر انسان کی حیثیت اور حقیقت دونوں چیزوں سے پردہ اٹھتا چلا جاتا ہے اور اپنے پیدا کرنے والے قوی و قدیر اللہ کی قدرت اور قوت اس پر آشکار ہوتی چلی جاتی ہے؛ اور زبانِ حال سے انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ بے بس اور عاجز ترین مخلوق ہے اور پاک پروردگار قوی ترین خالق اور ہر چیز پر قادر ہے۔

عرفانِ الٰہی کا حصول :
      اسی چالیس سالہ ڈھلوانی عمر میں عقل و شعور پختہ ہوتے ہیں، انسان حقیقت شناس بنتا ہے، اپنے بھلے برے کی تمیز پیدا ہوجاتی ہے، نبوت و رسالت کیلئے خالق انس و جن نے اسی لئے اس عمر کو مقدر فرمایا اور ہر نبی کو چالیس سال میں وحی کی پہلی روشنی سے منور کیا۔ فتبارک اللہ احسن الخالقين 
      ایمان والا صاحبِ معرفت بندہ بھی چالیس سال کے مرحلے میں پہنچتا ہے تو اپنے اور اہلِ خانہ پر رب کی کامل و تمام نعمتوں کا احساس کرتا ہے، عاجزی اور تواضع کی انوکھی ادا کے ساتھ ان کی شکر گزاری ان الفاظ میں کرتا ہے، جس کا ذکرکلام الٰہی میں کیا گیا ہے؛
...... حتى إذا بلغ أشده وبلغ أربعين سنة قال رب أوزعني أن أشكر نعمتك التي أنعمت علي وعلى والدي وأن أعمل صالحا ترضاه وأصلح لي في ذريتي إني تبت إليك وإني من المسلمين ۞ (الاحقاف :15)
ترجمہ:
..... یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری توانائی کو پہنچ گیا، اور چالیس سال کی عمر تک پہنچا تو وہ کہتا ہے کہ یار رب ! مجھے توفیق دیجیے کہ میں آپ کی اس نعمت کا شکر ادا کروں جو آپ نے مجھے اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی، اور ایسے نیک عمل کروں جن سے آپ راضی ہوجائیں، اور میرے لیے میری اولاد کو بھی صالحیت دے دیجیے، میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں شامل ہوں۔

اللہ کا علم اور اس کی قدرت :
      اللہ پاک نے اس حکمت کو اپنی الٰہی شان سے، بلیغانہ اسلوب میں، معجز کلام میں دو مقام پر یوں واشگاف فرمایا ہے ؛
 ۱) الله الذي خلقكم من ضعف ثم جعل من بعد ضعف قوة ثم جعل من بعد قوة ضعفا وشيبة ۚ يخلق ما يشاء ۖ وهو العليم القدير.
ترجمہ:
اللہ وہ ہے جس نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کمزوری سے کی، پھر کمزوری کے بعد طاقت عطا فرمائی، پھر طاقت کے بعد (دوبارہ) کمزوری اور بڑھاپا طاری کردیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور وہی ہے جس کا علم بھی کامل ہے، قدرت بھی کامل۔ (الروم:54)

۲) ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق ، افلا یعقلون.
ترجمہ: اور ہم جس شخص کو لمبی عمر دیتے ہیں اسے تخلیقی اعتبار سے الٹ ہی دیتے ہیں۔ کیا پھر بھی انہیں عقل نہیں آتی ؟ (يس:68)
_____________________ 







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے