قربانی دین اسلام کا شعار اور ایک عظیم الشان عبادت ہے جو دراصل حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی یادگار ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے ایک رات خواب دیکھا کہ وہ اپنے لخت جگر، اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکو ذبح کررہے ہیں، پیغمبروں کا خواب وحی الہیٰ ہوتا ہے، حضرت ابراہیم اشارہ غیبی سمجھ گئے کہ خدا چاہتا ہے کہ اس کی رضا کے خاطر میں اپنے جگر کے ٹکڑے کو قربان کردوں۔
صبح اپنے محبوب فرزند اسماعیل ؑسے خواب کا تذکرہ کیا، جانثار فرزند بول اٹھے: ’’ابا حضور! پروردگار کی طرف سے آپ کو جو حکم ہوا ہے اسے کر گزریئے، ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔ ‘‘ تسلم و رضا اور صبرو شکر کا عجیب امتحان تھا، باپ بیٹے کو ذبح کرنے اور بیٹا باپ کے ہاتھوں گردن کٹانے پر آمادہ تھا، عالم بالا میں ایک کہرام مچ گیا، کائنات کی فضاؤں پہ سکوت طاری ہوگیا۔ اللہ اکبر! کہیں باپ؛ بیٹے کو ذبح بھی کرتا ہے؟ کہیں پیغمبر؛ پیغمبر کی گردن پر چھری بھی چلاتا ہے؟ لیکن عشق کے انداز نرالے ہوتے ہیں۔
قریب تھا کہ حضرت ابراہیمؑ کی چھری اسماعیل ؑکی گردن پر چل جاتی کہ آسمان سے ندا آئی " یَا اِبْرَاھِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا ’’ اے ابراہیمؑ !تم نے خواب کو سچ کر دکھایا!" یہ عشق ومحبت کا سخت ترین امتحان تھا جس میں حضرت ابراہیمؑ پورے اترے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیلؑ کو جنت سے ایک دنبہ لے کر بھیجا اور ارشاد ہوا کہ تمہارا امتحان مکمل ہوا۔ اب اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں اس کی جگہ اس دنبہ کو ذبح کیا جائے، جو آپ کے لخت جگر کا فدیہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے خلیل کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس عمل کو عبادت کی شکل دے کر قیامت تک کیلئے اس کو جاری وساری کردیا اور اس پر بے شمار اجرو ثواب کا وعدہ فرمایا۔
قربانی کی حقیت اور اس کی روح کو بیان کرتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ تحریر فرماتے ہیں۔
’’ یہ قربانی کیاتھی؟ یہ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی بلکہ روح اور دل کی قربانی تھی، یہ ماسویٰ اللہ اور غیر کی محبت کی قربانی؛ خدا کی راہ میں تھی۔ یہ اپنے عزیز ترین متاع کو خدا کے سامنے پیش کردینے کی نذر تھی۔ یہ خدا کی اطاعت ، عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھی۔ یہ تسلیم ورضا اور صبرو شکر کا وہ امتحان تھا جس کو پورا کئے بغیر دنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی۔ یہ باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کردینا نہ تھا۔ بلکہ خدا کے سامنے اپنے تمام جذبات اور خواہشوں ، تمناؤں اور آرزوؤں کی قربانی تھی۔ اور خدا کے حکم کے سامنے اپنے ہر قسم کے ارادے اور مرضی کو معدوم کردینا تھا۔ اور جانور کی ظاہری قربانی اس اندرونی نقش کا ظاہری عکس اور اس خورشید حقیقت کا ظل مجاز تھا۔ ‘‘ (سیر ت النبی ﷺ)
_____________________
قربانی کی فضیلت
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحابؓ نے دریافت کیا : یارسو ل اللہ ﷺ ! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: تمہارے باپ ابراہیمؑ کا طریقہ (یعنی سنت) ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ پھر اس میں ہمارے لئے کیا ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے نیکی (یعنی بے شمار نیکیاں) (حوالہ بن ماجہ ج۶ ص۲۳۳)
وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر وعید:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایاجس شخص کو وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔ (ابن ماجہ جلد ثانی ص۲۳۲)
منجانب: جامعہ ابوالحسن علی ندوی
دیانہ، مالیگاؤں
از کتاب : قربانی کے فضائل و مسائل
مؤلف مولانا جمال عارف ندوی صاحب
0 تبصرے