پری پلان مرڈر کا بھیانک انجام
نعیم الرحمن ملی ندوی
اللہ رب العزت اس دنیا کا تنِ تنہا خالق و مالک ہے اور وہی تمام انسانوں کا رب ہے، انسانوں کا حقیقی بادشاہ اور سچا معبود ہےـ ساتھ ہی وہ حکیم ہے، اپنی حکمت کے تحت اس نے اس دنیا کو امتحان کی جگہ بنایا ہے اور اچھے برے کاموں کی نشاندہی اور انکی جزا و سزا بھی اس نے اپنے کلام میں بیان فرمائی ہےـ
بڑے اور سنگین گناہوں میں ایک گناہ ہے *Pre-planned murder (منصوبہ بند قتل)*
آج ہمارے معاشرے میں قتلِ عمد کے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں اور انسانی جان مچھر مکھی کی جان کی طرح ارزاں ہوچکی ہے۔ انسانی جان کی قدر و قیمت ختم ہوتی جارہی ہےـ ایک مسلمان کا قتل کردینا اللہ کے ہاں ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورة المائدہ آیت 32 میں قتل ناحق کو پوری نوع انسانی کے قتل کی طرح قرار دیا گیا ہے۔
قتل کے جرم کی سنگینی:
اللہ پاک کا ارشاد ہے : وَمَنۡ يَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَـنَّمُ خَالِدًا فِيۡهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيۡمًا.
ترجمہ: اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا، اور اللہ نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔
(سورۃ النساء. آیت 93)
__________________________
قتل عمد کے جرم کا ہولناک انجام:
قتل عمد کے بارے میں بیک وقت چار قسم کی سزا بیان کی گئی ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان کو عمداً قتل کرے گا اس کی سزا
1) جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور
2) اس پر خدا کا غضب اور
3) اس کی لعنت ہے اور
4)اس کے لیے عذاب دردناک خدا نے تیار کر رکھا ہے۔
یہاں قتل عمد کے جرم کی جو سزا بیان ہوئی ہے وہ بعینہ وہی سزا ہے جو کٹر کافروں کے لیے قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ اس آیت کو پڑھ کر ہر مسلمان کا دل لرز اٹھتا ہے۔
اس سزا کی سنگینی کی علت سمجھنے کے لیے اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب سے بڑا حق اس کی جان کا احترام ہے، کوئی مسلمان اگر دوسرے مسلمان کی جان لے لیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ حقوق العباد میں سے اس نے سب سے بڑے حق کو تلف کیا جس کی تلافی و اصلاح کی بھی اب کوئی شکل باقی نہیں رہی اس لیے کہ جس شخص کے حق کو اس نے تلف کیا وہ دنیا سے رخصت ہوچکا اور حقوق العباد کی اصلاح کے لیے تلافی مافات ضروری ہے۔
__________________________
خلاصہ یہ کہ آیت میں مومن کے قتل پر نہایت سخت وعید بیان کی گئی ہے مثلا اس کی سزا جہنم ہے جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہوگا۔ اتنی سخت سزائیں بیک وقت کسی بھی گناہ کی بیان نہیں کی گئیں۔ جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایک مومن کو قتل کرنا اللہ کے ہاں کتنا بڑا جرم ہے احادیث میں بھی اس کی سخت مذمت اور اس پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔
بعض علماء مذکورہ سخت وعیدوں کے پیش نظر قبولِ توبہ کے قائل نہیں۔ لیکن قرآن و حدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے (الا من تاب واٰمن وعمل عملا صالحا) (الفرقان۔ 70)
_________________________
جو لوگ اس جرم میں مبتلا ہیں یا ہوچکے ہیں۔ خدا کیلئے اس جرم سے باز آئیں! توبہ کریں! رب العالمین کی طرف واپس آئیں!
0 تبصرے