انجینئر عبدالرحمن (علیگ) دہرہ دون
بنیادی طور پر اسلام تین اصولوں پرمحیط ہے یعنی توحید، رسالت اور آخرت، آج کے مسلمان کی سوچ اور فکر پرنظر ڈالی جائے تو پہلے دو اصول یعنی توحید اور رسالت پر ہرمسلمان کا ایمان ہے مگر تیسری بنیاد یعنی آخرت کے تقا ضوں کو فراموش کردیا ہے۔ یہ آخرت کا یقین ہی ہے جوصالحات کو اپنانے کا بہترین محرک ہے اس کے بغیر انسان بالکل آزاد ہوکر رہ جاتا ہے اور قیود وحدود سے آسانی سے نکل جاتا ہے۔ جب تک قرآن پاک کے مطالبہ کے مطابق آخرت پر عین الیقین کی کیفیت طاری نہیں ہوگی ہم نہ تو اچھے انسان دنیا میں ہی بن سکتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں سرخروئی حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں سے جو معاملہ کرتا ہے وہ دوسرے انسانوں کے مقابلہ میں مختلف ہے۔ ان کے لئے خوشی ہو یا غم دونوں اللہ کی رحمت ہی ہوتی ہیں۔ انسان کے لئے سب سے بڑی دولت اس دنیا میں اطمینان قلب ہے۔یہی اطمینان قلب لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُوْنَ کی کیفیت پیدا کرتا ہے اور یہ اطمینان قلب ان تینوں اصولوں پر مکمل یقین اورعمل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ زیر نظر مضمون ’’جدید سائنس کی روشنی میں‘‘ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کوقیامت کے دن کیسے زندہ فرمائےگا۔شاید کہ ہمارے ایمان میں اضافہ ہوسکے۔
اللہ تبارک و تعالی نے یہ کائنات ایک نظام کے تحت بنائی جسکے لاتعداد قوانین مقرر فرمایا ہے۔ انسان اس زمین پر کب آیا یہ صرف اللہ تعالی کے ہی علم میں ہے۔ کچھ محققین انسانی زندگی کا اندازہ اس زمین پر دس ہزار سال قبل لگاتے ہیں۔ اگر یہ صحیح بھی مان لیا جائے تو قرآن پاک کے نازل ہونے سے قبل ساڑھے آٹھ ہزار سال کا وقفہ ہے۔ بہر حال یہ ایک مستقل بحث ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسان اس لمبے عرصہ میں وہ ترقی نہیں کر پایا جو پچھلے چودہ سو برسوں میں ہو گئی۔ لامحالہ ماننا پڑ ے گا کہ یہ قرآن اور اسلام کی برکت بلکہ دَین ہے جس نے انسان کو عملی طور پرمحققانہ تدبر و تفکر پر آمادہ کیا۔سائنسدانوں نے نظام ِکائنات سے متعلق کچھ اصول دریافت کئے یعنی یہ پتہ لگایا کہ کون سا عمل کس قانون کے تحت ہو رہا ہے اصلاً تو یہ قانون اللہ تبارک وتعالی کے ہی بنائے ہو ئے ہیں لیکن سائنسدانوں نے اپنی عقل کو استعمال میں لاکر جو اسی ذاتِ پاک کی ودیعت کی ہوئی تھی اس قانون کو دریافت کیا اور آئندہ کی تحقیقات کی راہ ہموار کی۔ اس طرح عالم ِ خلق میں جتنے بھی کام ہوتے ہیں وہ سب کسی قانون کے تحت ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اور قیامت کے دن انسانوں کا اپنی اپنی قبروں سے اٹھنا بھی عالمِ خلق سے ہی متعلق ہے اس لئے اس کا ضابطہ بھی اللہ تبارک وتعالی کا ہی بنایا ہوا ہونا چاہئے۔ وہ ضابطہ کیا ہے ؟
دوبارہ زندہ کئے جانے سے متعلق پہلے قرآنِ پاک کی کچھ آیات نیز اسی سے متعلق احادیث شریف ملاحظہ ہوں :
1) فرمایا تم اسی زمین میں زندہ رہوگے اور اسی میں مروگے اور اسی سے نکالے جاؤگے۔ (الاعراف 25-7)
2) (لوگو!) ہم نے تمھیں اسی (زمین) سے پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں دوسری بار نکالیں گے۔ (طہٰ55-20)
3) اور اسکی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس کے حکم سے آسمان اور زمین کھڑے ہیں جب وہ تمھیں زمین سے ایک بلاوا بلائے گا تو اسی دم نکل کھڑے ہوگے۔ (الروم25-30)
4) اس دن حق کے ساتھ چنگھاڑ سنیں گے۔ یہ (قبروں سے) نکلنے کا دن ہے بے شک ہم ہی جِلاتے ہیں اور مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹنا ہے اس دن ان سے زمین پھٹ جائے گی، جلدی کرتے ہوں گے یہ اکٹھا کرنا ہم پر آسان ہے۔ (42 -50 تا44 )
5) اور جب جانیں ملائی جائیں گی۔ (التکویر 7-81)
6) اور کہتے ہیں کہ کیا جب ہم (مر کر ) ہڈیا ں ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم کو از سرِنو پیدا کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے گا تو کہہ دے کہ تم پتھر یا لوہا یا اور کوئی چیز بھی بن جاؤ جو تمہارے خیال میں بڑی سخت ہو۔ اس پر یہ پوچھیں گے کہ ہم کو دوبارہ کو ن زندہ کرے گا ؟ تو کہہ دے کہ وہی جس نے تم کو اول پیدا کیا۔ (بنی اسرائیل 51,49,17)
7) لوگو! تم جی اٹھنے سے شک میں ہو تو ہم نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفہ سے ، پھر خون کی پھٹکی سے ، پھر تمام اور ناتمام گوشت کے لوتھڑے سے تاکہ ہم تم سے بیان کریں۔ اور ایک وقت مقرر تک جتنا ہم چاہیں رحمو ںمیں ٹھہرا رکھتے ہیں پھر ہم تمھیں بچہ بنا کر نکالتے ہیں، پھر ہم تمھیں پالتے ہیں تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور کوئی تم میں سے مار دیا جاتا ہے اور کوئی تم میں سے ناکارہ عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے تاکہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ اور تو زمین کو خشک دیکھتا ہے جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو وہ پھلتی اور پھولتی ہے اور ہر قسم کا خوشنما سبزہ اگاتی ہے یہ اس لئے کہ اللہ جو ہے وہی حق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہ ہر شئے پر قادر ہے اور یہ کہ قیا مت آنے والی ہے اس میں شک نہیں ہے اور یہ کہ اللہ ان کو اٹھا لے گا جو قبروں میں ہیں۔ (الحج 7,5,22)
8) وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور زمین کو اس کے مَرے پیچھے زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم نکالے جاؤگے۔ (الروم 19-30)
9) اور اللہ وہ ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں ، پھر اسے ہم مردہ بستی کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر ہم اس سے زمین کو اس کے مَرے پیچھے زندہ کرتے ہیں۔ یوں ہی جی اٹھنا ہے۔ (فاطر 9-35)
10) اور وہ جس نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ پانی اتارا۔ پھر ہم نے اس سے ایک مردہ بستی کو جِلا اٹھایا یوں ہی تم بھی نکالے جاؤگے۔ (الزخرف11-43)
11) اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا پھر ہم نے اس سے باغ اور کاٹنے والے اناج اُگائے اور اونچی اونچی کھجوریں جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں، بندوں کی روزی کے لئے اور اس سے ہم نے مُردہ بستی کوزندہ کیا۔ یوں ہی (قبروں)سے نکلنا ہے۔ ( ق11-9-50)
12) میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں اور (بدی ) پر ملامت کر نے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم ہرگز اس کی ہڈیا ں اکھٹی نہیں کریں گے، کیو ں نہیں، ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پوروں کو درست کردیں۔ ( 1-75 تا4 )
انسانی زندگی دو چیزوں کا مرکب ہے پہلی چیز جان ہے جس کا تعلق انسانی بدن سے ہے اور جسکا تعلق عالمِ خلق سے ہے۔ دوسری چیز روح ہے جسکا تعلق اللہ تعالی کے امر سے ہے۔ آدم کا پتلا تیار تھا فرشتوں کو سجدہ کا حکم تب ہوا جب اللہ تبارک و تعالی نے اس میں روح پھونکی یہ جان یعنی روحِ حیوانی اور روح؛ انسان میں مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں اگر انسانی جسم سے جان نکل جائے تو روح نہیں رہتی اور اگر روح نکل جائے تو جان بھی نکل جاتی ہے۔ جان اور روح الگ الگ دو چیزیں ہیں ان پر دوسرے پہلو سے غور کرتے ہیں۔ بخاری شریف کی ایک حدیثِ پاک جس کا ترجمہ ہے ــ ’’حضرت عبداللہؓ نے بیان کیا کہ ہم سے صادق المصدوق رسول ﷺ نے بیان فرمایا کہ تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک (نطفہ کی صورت میں) کی جاتی ہے اتنے ہی دنوں تک پھر ایک بیضہ خون کی صورت اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغۂ گوشت رہتا ہے۔ اسکے بعد اللہ تعالی ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے کا ) حکم دیتا ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کاعمل ، اسکا رزق ، اسکی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک لکھ دے۔اب اس نطفہ میں روح ڈالی جاتی ہے۔‘‘
سائنسی نقطۂ نظر سے جاندار چیزوں کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ شیٔ جس میں حرکت ہو اور وہ بڑھے وہ جاندار ہے اب ذرا غور کیا جائے کہ مرد کے اسپرم میں بھی جان ہے کیونکہ اس میں بذات ِخود حرکت کی صفت موجود ہے اور عورت کے بیضہ میں بھی جان ہے کہ اس میں بھی یہ صفت موجود ہے۔ دونوں کے ملنے کے بعد تو اس میں بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور اسے خوراک بھی چاہئے ہوتی ہے اس لئے اس میں بھی جا ن یعنی روحِ حیوانی موجود ہے۔ چار ماہ بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے معلوم ہو ا کہ جان اور روح دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ شاہ ولی اللہ ؒ حجۃ اللہ البالغہ میں جان کو روح کی سواری قرار دیتے ہیں۔ اب اگر انسانی زندگی کی عمر پر غور کیا جائے تو اس کی عمر اتنی ہی ہوگی جتنی عمر روح کی ہے۔ روح کب پیدا ہوئی ؟ ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہمیں صرف اتنا علم ہے کہ روح اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے ہے۔ روح کا زمانہ پیدائش ہم ایک انتہا مان سکتے ہیں۔ دوسری انتہا مرنے کے بعد کی ابد کی زندگی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی تو یہ دوسری انتہا ہوئی۔ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ کی یہ ہماری دنیاوی زندگی ہے جو اوسطاََ 60-65 سال کی اور زیادہ سے زیادہ 150 سال کی ہے۔ جب ایک انتہا سے کسی دوسری چھوٹی تعداد کا مقابلہ کیا جاتا ہے تو انتہا کے مقابلہ میں سائنسی طریقہ میں چھوٹی تعداد کو صفر zero مان لیا جاتا ہے۔ اس لئے ہماری یہ دنیوی زندگی اس ابدالاباد کی زندگی کے مقابلہ میں صفر ہے اور اس رحیم کریم ذات نے صرف ان 60-70 سالوں کے لئے ہمیں اس دنیا میں بھیجا ہے۔ ہماری آزمائش کے لئے۔
مسلم شریف کی ایک حدیث اس طرح ہے ۔۔۔۔۔حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے رسول ﷺ نے فرمایا صور کی دونوں پھونکوں کے بیچ چالیس کا فرق ہوگا لوگوں نے کہا اے ابو ہریرہؓ چالیس دن کا ؟انہوں نے کہا میں نہیں کہتا۔ پھر لوگوں نے کہا چالیس مہینے کا ؟ انہوں نے کہا میں نہیں کہتا (یعنی مجھے اس کا تعین معلوم نہیں ) پھر آسمان سے ایک پانی برسے گا لوگ ایسے اُگ آویں گے جیسے سبزہ اُگ آتا ہے۔ آدمی کے بدن میں کوئی چیز ایسی نہیں جو گل نہ جائے مگر ایک ریڑھ کی ہڈی ہے اس ہڈی سے قیامت کے دن لوگ پیدا ہوں گے ‘‘۔ علامہ امام جلال الدین سیوطی ؒنے اپنی کتاب ’’العدول الشاقرہ فی امور الآخرہ‘‘ جسکا اردو ترجمہ مولانا مفتی محمد امداد صاحب نے ’’قیامت کے ہولناک مناظر ‘‘ کے نام سے کیا ہے میں ایک طویل حدیث جو تفسیر ابنِ جریر ، طبرانی فی المطولات ،تفسیر ابنِ کثیر ، درِمنشور ، ابنِ حاتم وغیرہ کے حوالہ جات سے لائے ہیں اسمیں ’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا جب کوئی بھی باقی نہ رہے گا سوائے اللہ واحدو احد تو (اللہ کے حکم سے ) آسمان اور زمین کو لپیٹ لیا جائیگا جس طرح لکھے ہوئے مضمون کا کاغذ لپیٹ لیا جا تاہے اور اللہ ارشاد فرمائے گا ’’میں جبار ہوں ‘‘ آج کس کی حکومت ہوگی تین مرتبہ یہی فرمائے گا جب اس کا کوئی جواب نہ دیگا تو اپنے لئے اللہ خود فرمائیگا ’’اللہ واحد و قہار کی حکومت ہوگی ‘‘۔ اور اس زمین و آسمان کو دوسری زمین سے بدل کر بچھا دیا جائیگا اور اسکو عکاظی چمڑے کی طرح پھیلادیا جائے گا۔ نہ اس میں کوئی کجی نظر آئے گی نہ کوئی نشیب و فراز۔ پھر اللہ تبارک وتعالی مخلوقات کو ایک مہر بند ڈانٹ (صاعقہ) دیں گے تو یہ سب بدلی ہوئی زمین میں اس حا لت میں منتقل ہو جائیں گے جس طرح پہلی زمین میں تھے جو اس کے پیٹ میں ہوں گے اسکے پیٹ میں اور جو اسکی پشت پر ہوں گے وہ اسکی پشت پر منتقل ہو جائیں گے پھر اللہ تعالی ان پر عرش کے نیچے سے ان کے لئے پانی اتاریں گے پھر آسمان کو حکم دیں گے کہ بارش برسائے تووہ چالیس دن تک برستا رہے گا حتی ٰ کہ ان لوگوں سے بارہ ہاتھ اونچا ہو جائے گا پھر اللہ تعالی اجسام کو حکم دیں گے کہ اگیں تو وہ اس طرح اگیں گے جس طرح سبزہ اگتاہے حتیٰ کہ جب ان کے اجسام پورے اُگ جائیں گے اور ایسے ہو جائیں گے جس طرح (دنیا ) میں تھے، اللہ تعالی حکم دیں گے کہ عرش کو اٹھا نے والے زندہ ہو جائیں تو وہ زندہ ہو جائیں گے ، پھر اللہ تعالی حضرت اسرافیل ؑکو حکم دیں گے تو وہ صور لے کر اپنے منہ میں رکھ لیں گے۔ پھر اللہ تعالی حکم دیں گے کہ جبرئیل اور میکائیل زندہ ہو جائیں تو وہ زندہ ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالی ارواح کو بلائیں گے تو حاضر ہو جائیں گی۔ مومنین کی ارواح سے نور کی چمک اٹھتی ہوگی اور دیگر ارواح سے تاریکی پھوٹتی ہوگی پھر اللہ تعالی ان سب کو اکھٹے اپنی مٹھی میں لے لیں گے پھر ان کو صور میں ڈالیں گے۔ پھر اللہ تعا لی اسرافیل ؑکو حکم دیں گے کہ قبروں سے اٹھنے کا نفخہ پھونکیں تو وہ اس کا نفخہ پھونکیں گے تو روحیں اس طرح سے نکلیں گی گویا شہد کی مکھیاں ہوں جنھوں نے آسمان اور زمین کی فضاؤ ں کو بھر دیا ہو پھر اللہ تعالی فرمائے گا میرے غلبہ اور جلال کی قسم ہر روح اپنے اپنے جسم میں لوٹے چنانچہ ہر روح زمین میں اپنے اپنے جسم میں داخل ہو جائیگی ناک کے راستے سے پورے جسم میں ایسے دوڑے گی جس طرح ڈسے ہوئے میں زہر سرایت کرتا ہے پھر تم لوگوں سے زمین کھلے گی اور زمین میں سے سب سے پہلے میں (حضور ﷺ) نکلوں گا پھر تم بھی قبروں سے نکل کر جلدی جلدی اپنے رب کے پاس پہنچوگے۔ (مُھطیعینَ اِلَی الداعِ یَقُو لُ الکٰفِرُونَ ھٰذَا یوَمًُُُ عَسِرُُُُ) القمر 8۔ترجمہ : بلانے والے کی طرف دوڑے چلے جارہے ہونگے (اور وہاں کی سختیاں دیکھ کر) کافر کہتے ہونگے کہ یہ دن بڑا سخت ہے ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور نا مختون ہونگے۔ بخاری شریف کی ایک حدیث اس طرح ہے ’’ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے رسول ﷺنے فرمایا تھا آدمی کے بدن کو زمین کھا جاتی ہے سوائے ’’ڈھڈی کی ہڈی‘‘ کے اس سے آدمی پہلے بنایا گیا ہے اور اسی سے پھر جوڑا جائیگا۔‘‘ علامہ جلال الدین سیوطی ؒایک دوسری حدیث کتاب السنہ ابن ابی عاصم اسناد صحیح کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ ’’حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ جناب رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر انسان کو زمین کھا جاتی ہے مگر اسکی ریڑھ کی ہڈی کے نچلے سرے کو نہیں کھاتی۔ اسی سے انسان کو دوبارہ کھڑا کیا جائیگا اور اللہ زندگی کا پانی برسائیں گے جس سے انسان سبزہ کی طرح اُگنے لگیں گے حتیٰ کہ جب اجسام کو نکالا جائیگا تو اللہ روحوں کو آزاد کر دیں گے تو ہر روح پلک جھپکنے سے زیادہ تیزی میں اپنے جسم میں پہنچ جائے گی۔
----------------------------------
مندرجہ بالا آیات اور احادیث پاک پر غور کرنے سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔
1) انسان کی ریڑھ کی ہڈی کے نچلے سِرے میں ایک ایسا جز اللہ تبارک و تعالی نے رکھ دیا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا عربی میں اسکو عجب ذنب یعنی ریڑھ کی ہڈی کا آخری سرا سے تعبیر کیا گیا ہے۔
۲) اسی عجب ذنب سے انسان دوبارہ پیدا کئے جائیں گے۔
۳) اس پیدائش میں زندگی کی بارش کا بڑا رول ہوگا۔
۴) انسان زمین سے سبزہ کی طرح اگیں گے۔
۵) سبھی ننگے پاؤں اور غیر مختون ہونگے۔
۶) سبھی جوان ہونگے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عجب ذنب میں اللہ تعالی نے انسان کا ایک سیل Cellمحفوظ کر دیا ہے۔ اب ذرا سیل کے بارے میں جدید تحقیقات کا ما حصل پیش کرتے ہیں۔ یہ معلومات جناب ڈاکٹر معظم علی کے بلوگ سے لی گئی ہیں۔
خلیہ کی دریافت: (Cell of Discovrey)
خلیہ کی دریافت سے قبل انسانی تخلیق کے بارے میں انسانی معلومات صرف مفروضات پر مبنی تھیں۔خلیہ کی دریافت نے علم الاجنۃ (Embryology) میں ایک بہت بڑا انقلاب برپا کیا۔ جب پہلی بار یہ پتہ چلا کہ خلیہ cell ایک حیاتیا تی اکائی ہے یعنی عام حیوانات کی زندگی کی ابتداء ایک خلیہ سے ہوتی ہے۔خلیہ کی دریافت سے یہ پتہ چلا کہ نباتی یا حیوانی جسم کا پودا خلیوں سے بنا ہوا ہے۔ سب سے پہلے روبرٹ ہوک Hooke Robert نے 1665ء میں خلیہ کو دیکھا۔ متھاس شیلڈن Mathias Schlieden نے 1838ء میں نباتات کے خلیے کا پتہ لگایا۔1839ء میں تھیوڈر شوان Theodor Schwann نے حیوانات کے خلیے کا پتہ چلایا۔ ان دونوں کی دریافت سے علم الاجنہ Emborylogy ترقی کی ایک نئی راہ پر گامزن ہوئی۔
خلیہ Cell
خلیہ تمام نباتات و حیوانات کے اجسام کی بنیادی اکائی ہوتی ہے اور زندگی کے تمام افعال خلیوں کے اندر ہی سر انجام پاتے ہیں۔ خلیے اپنی جسامت اور شکل کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں بعض اتنے چھوٹے کہ عام خوردبین سے بھی نظر نہیں آتے اور بعض اتنے بڑے کہ انسانی آنکھ سے بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔
کروموسوم Chromosome
ہر خلیہ کے مرکز Nucleus میں دھاگے کے مانند چھوٹے اجسام ہوتے ہیں یہ اجسام کروموسوم کہلاتے ہیں۔ ان کروموسوم کو صرف خلیہ کی تقسیم کے وقت دیکھا جا سکتا ہے۔ اور جب خلیہ حالتِ استقرار Interphase میں ہوتا ہے تو یہ کروموسوم مرکز میں بہت باریک دھاگوں کی شکل میں پڑے رہتے ہیں۔
جین Gene
جینز Genes کروموسوم میں تسبیح کے دانوں کے مثل قطار میں پڑے ننھی ننھی مخلوق کا نام ہے جو خصوصیات کو ۱یک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ساخت کے اعتبار سے جینز ایک خاص قسم کے مالیکیول Molecule کا حصہ ہوتے ہیں۔ جسے ڈی این اے DNA کہا جاتا ہے۔ ایک خلیہ میں ڈی این اے کے اربوں یونٹ ہوتے ہیں۔ جین جو ڈی این اے کا حصہ ہوتاہے وہ ایک پیام رساں Massenger RNA کے ذریعے پروٹین کے ایک پولی پیٹائڈ Poly petide کے سلسلے کے کیمیائی عمل Synthesis کو چلاتاہے۔
جین کی تعریف ۔۔۔ جین کیمیائی طور پر حیاتیات کی معلومات کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں گویا جینز امتیازی خصوصیات کی وراثت کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ مجامعت کے بعد مردانہ نطفہ میں سے چند سو منوی خلیے ، زنانہ نطفہ (بیضہ ovum) کی تلاش میں رحم سے ہوتے ہوئے قناۃ البیض (Fallopion Tube) کے اندر بیضہ کو پالیتے ہیں اور ان چند سو منوی خلیہ میں سے صرف ایک بیضہ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور بیضہ کو بار آور بنا دیتا ہے اس بار آور بیضہ کو طبی اصطلاح میں زائگوٹ (نطفہ ِاُمشاج) کا نام دیا گیا ہے۔
زائگوٹ کی تقسیم در تقسیم کا عمل Initiation of cleavage ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بار آور بیضہ (زائگوٹ) قناۃ البیض سے رحم کی طرف سفر شروع کر دیتا ہے تو اسکی صفتِ تقسیم شروع ہو جاتی ہے یعنی پہلے ایک ، پھر ایک سے دو، پھر دوسے چار ، پھر چار سے آٹھ ۔۔۔۔۔۔ خلیات کے اس تقسیم کے عمل کومائی ٹو ٹک ڈیویژن Mitotic Division یا کلیویج Cleavage کہا جاتا ہے۔ جب زائگوٹ میں خلیوں کی تعداد 16 ہو جاتی ہے تو اب اس کو مرولہ Morula کہا جاتا ہے۔ عام طورپر ہر مرولہ بار آوری کے تین دن بعد بن جاتا ہے۔ عملِ تخلیق کا یہ فطری طریقہ ہے۔ وہ طریقہ جو سائنس نے خلیہ کی دریافت کے بعد ایجاد کیا ہے وہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی ، سروگیٹ مدر (کرایہ کی کوکھ) اور کلوننگ ہے۔ فطری طریقِ تخلیق میں نر و مادہ کے نطفوں کے ملاپ کے بعد تخلیق کا عمل شروع ہو جاتا ہے جبکہ سائنسی طریقِ تخلیق میں نر و مادہ کے نطفوں کو رحم سے باہر مصنوعی طریقہ سے ملا کر بعد میں ما ں کے رحم میں ڈال دیا جا تا ہے ہمارے موضوع کی نسبت سے مندرجہ ذیل اقتباسات میں صرف کلوننگ کی وضاحت کی جائیگی۔
کلوننگ (Cloning) ۔۔۔۔۔۔۔ کلون کے لفظی معنی ہم شکل اور مماثل کے ہیں۔ کلوننگ سے مراد تخلیق کا وہ غیر فطری طریقہ ہے جس کے ذریعہ ایک ہی طرح کے حیوانات یا انکے اعضاء جزوی یا مکمل طور پر کثیر تعداد میں بنائے جا سکتے ہیں۔ گویا کلوننگ جینیاتی ٹیکنالوجی کی وہ قسم ہے جس میں سالمہ (Molecule) یا جانوروں یا پودوں کی بہت سی نقول بنائی جا سکتی ہیں۔ کلون ہمیشہ ایک دوسرے کی ہو بہو کاپی ہوتی ہے۔ مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے سائنسدانوں نے حیوانات کی کلوننگ میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اگر چہ عمل تخلیق میں نر و مادہ کے نطفے ہی استعمال ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے ہر خلیہ میں بالقوہ یہ استعداد رکھی ہے کہ مناسب ماحول ملنے پر جسمانی خلیہ سے بھی ایک مکمل انسان وجود میں آسکتا ہے۔
اب پھر ذرا احادیث شریف کی طرف لوٹئے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کا آخری سرا کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اسی ہڈی میں اللہ تعالی نے ہر انسان کا ایک سیل محفوظ کر دیاہے۔ قیامت کے دن عرشِ بریں سے چالیس دن تک ایک مخصوص بارش کے نتیجہ میں انسان کی کلوننگ کے مناسب ماحول وجودمیں آجائیگا اور عجب ذنب پھٹ جائے گا جس میں سے محفوظ سیل نکل کر کلوننگ کے عمل سے پورا انسان تیار ہو جائیگا یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ سیل میں جان رہتی ہے۔ اگر جان نہ ہو تو سیل مردہ کہا جائیگا۔ چنانچہ جب کلوننگ کے ذریعہ انسان کا جسم مکمل ہو جائیگا تو اللہ کے حکم سے ہر جسم کی روح اپنے مخصوص جسم میں داخل ہو جائے گی اور انسان زندہ ہو کر حشر کے میدان میں ہنکا لیا جائے گا۔ احادیث شریف میں جو ذکر ہے کہ قبر سے روح کا تعلق ہمیشہ رہتا ہے۔ تو دراصل جہاں عجب ذنب ہے وہی قبر ہے کیونکہ وہاں پورا انسان سیل کی شکل میں موجودہے۔اس نظریہ کے ساتھ قرآن کریم کی آیات اور اس سلسلہ کی احادیث کریمہ سے مطابقت ہو جاتی ہے۔زیادہ علم اللہ تعالی کی ذات بابرکات کو ہی ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ کسی دوسرے طریقہ سے انسان کو پھر زندہ کر دے۔ واللہ اعلم بالصواب
*****
0 تبصرے